بابصیرت مسلمان
تحریر: آغا مجتبٰی زمانی
ارشاد ربّ العزت ہے: ’’اُس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے، تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔‘‘ (سورۂ ملک، آیت ۲) کبھی کبھی انسان کتنا خود غرض ہوجاتا ہے۔ خود غرضی کی بھی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں، جو ہمیں مختلف انداز میں نظر آتی رہتی ہیں۔ جب انسان پہ بدبختی کے سائے منڈلانے لگتے ہیں تو دین اور دنیا کا بھی خیال نہیں کرتا اور نہ آخرت کی فکر یاد رہتی ہے، جبکہ حضرت امام علی ابن ابی طالب آخرت کے لئے عمل انجام دینے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بے شک تم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہو، اسی کے لئے عمل انجام دو۔‘‘ (غرر الحکم:ج۱، ص۱۷)
لیکن انسان کتنا پستی میں جا چکا ہے کہ وہ اپنی قدر تک کھو بیٹھتا ہے، اپنی شخصیت کا ادراک تک بھی بھول جاتا ہے، پھر انسان بھول جاتا ہے کہ کبھی کبھی تو اُسے ’’تو‘‘ اور ’’تم‘‘ کہکر مخاطب کرنے سے بھی ناگواری محسوس ہوتی تھی، لیکن ایک جانب انسانیت اور مسلمانیت سے بھی اتنا عاری ہو جاتا ہے کہ اس کی عقل پر بہت گہری گرد جم جاتی ہے، اس کی آنکھیں ہوتے ہوئے بھی غیرت، عزت و انسانی اقدار کی راہیں دیکھنے سے قاصر ہو جاتی ہیں۔ پھر وہ اپنا مقام بھول جاتا ہے، اپنی حیثیت کھو بیٹھنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے، اپنا معاشرتی تشخص پامال کرنے کے لئے خود کو تباہی کے دھانے پر لے جاتا ہے، جو بھی اس انسان کے گرد آلود اور زنگ آلود دماغ میں آتا ہے، اسی خود غرضی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہر قسم کی بربادی اور تباہی کو گلے سے لگانے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے، پھر وہ اپنا نام و نمود بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ پھر تو اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کس برادری، کس ذات پات اور اعلٰی حسب و نسب سے تعلق رکھتا ہے، اب تو اسے یہ بھی یاد نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
وہ بھول جاتا ہے کہ اس کی ماں نے کس امید کے ساتھ اسے تربیت دی تھی، کس مشقت سے باپ نے پرورش کی۔ دنیا کی زینت کے حوالے سے ایک جگہ حضرت علی فرماتے ہیں کہ: ’’مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک عمل آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘ (غرر الحکم:ج۱، ص۱۶) لیکن بے عمل انسان اپنی بے دین خود غرضی میں اتنا غرق ہوکر یہ بھی یاد نہیں رکھتا کہ وہ اپنے باعزت والدین کی زندگی کا حاصل اور امید تھا۔ اس کے باشرف والدین نے کیا اس لئے اسے پال پوس کے جوان کیا تھا کہ یہ کبھی اس طرح بھی ان کے لئے ننگ و عار کا باعث بننے جا رہا ہو۔ کم از کم ایک انسان میں یا مسلمان میں اتنی تو غیرت اور شرافت ہونی چاہئے کہ جو کام وہ کر رہا ہے اس کی اسلام اور انسانیت میں تو کوئی گنجائش ہو، اگر ہم دیندار ہیں یعنی مسلمان ہیں تو اسلام اور اسلامی قوانین کی کسی حد تک تو پابندی ہونی چاہئے، کچھ تو دینی اقدار اور شریعت کا پاس ہو، کچھ تو انسانی حس بیدار اور زندہ ہو۔
کم از کم کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوچ تو لیا جائے کے جو کام کرنے جا رہے ہیں یا کیا جا رہا ہے، اس میں کچھ تو عزت و شرافت کی گنجائش موجود ہو۔ اگر اس کام پر اعتراض کا کوئی بھی پہلو نکلتا ہو تو اس سے بچنے یا دفاع کے لئے کوئی تو حیلہ بہانہ موجود ہو۔ لیکن جہاں دین اور شریعت ہمیں آزادی دیتی ہے، وہاں ہم تنگ نظر اور دقیانوس بن جاتے ہیں، لیکن جہاں ہمارا نفس ہمیں شیطانی کاموں اور خلاف شرع کوئی بھی کام جس کے انجام دینے میں شرعی طور پر کوئی بھی جواز یا راستہ موجود نہ ہو، ہم وہاں منافقت سے کام لیتے ہیں، پھر ہمیں نہ دین کی نہ دنیا کی اور نہ معاشرے اور نہ اپنے خاندان کی کوئی پرواہ ہوتی ہے۔ ہمیں بے عملی اور منافقت سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ خداوندِ قدوس ارشاد فرماتا ہے: ’’منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے سے ہیں۔ سب برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور نیکیوں سے روکتے ہیں۔‘‘(سورۂ توبہ، آیت۶۷)
اب قرآن نے منافق کی خصوصیات بتا دیں۔ اللہ تعالٰی کے حکم اور اس کے نورانی کلمات کی روشنی میں اسلام نے ایک راستہ اور صاف و سیدھا راستہ متعین کر دیا ہے، جو بھی ہو، وہ چاہے جو کوئی بھی ہو، وہ اس راستے سے جب بھی ہٹ کر چلے گا، اسلام اور اسلام پر چلنے والے اس سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ حق قرآن میں اللہ تعالٰی نے بیان فرما دیا کہ: ’’جو لوگ رسول نبی امّیؐ کی اتباع کرتے ہیں، جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے۔‘‘(سورۂ اعراف، آیت۱۵۷)
کچھ فیصلے اور کام انسان کی ذات تک محدود ہوتے ہیں، لیکن جب ہم معاشرے میں مل جل کر رہتے ہیں ، ماں باپ، بہن بھائی، باپ بیٹے، بیٹی بہو، شوہر بیوی کے ساتھ رہتے ہیں، ہم دوست بھی رکھتے ہیں تو ان سب کی عزت اور ان کی حمیت کا خیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے، کسی غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکت سے باز رہنا ہماری شرعی، سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، کیونکہ ہمارے اچھے اور برے عمل سے یہ تمام رشتے قلبی اور روحانی طور پر جڑے ہوتے ہیں، ہماری مصیبت ان کے لئے پریشانی اور ہماری کامیابی و ترقی ان کے لئے باعث راحت و مسرت بھی ہوتی ہے۔ ہمارا ایک دوسرے پر حق ہے، جب ہم مومن ہیں اور مومن ہونے کے دعویدار بھی ہیں تو احکامات الٰہی اور فرامین الٰہی کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں
اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘ (سورۂ توبہ، آیت۷۱) ایک روایت میں ہے کہ: ’’جو تم سے محبت کرے گا، وہ تمہیں بُرے کاموں سے روکے گا۔‘‘ (حضرت علی ؑ ،بحوالہ: غرر الحکم،ج۱، ص۲۲۸)
اگر بڑی شخصیات اور ہمارے گهر کے بزرگ، خاص طور پر اسکول کے استاد اور استانی، مدارس کے مدرس اور امام جماعت یا دیگر شعبہ ہای زندگی سے تعلق رکهنے والی معتبر شخصیات غیر اخلاقی، غیر شرعی کاموں میں ملوث ہونگے تو ان کی بے اعتباری محسوس کی جائے گی، کیونکہ یہ سب معاشرے میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بے اعتباری نئی نسل تک پہنچتی ہے۔ اس کے بعد آنے والی نسلوں سے کوئی اچھی امید لگانا واقعاً مشکل ہوگا۔ حضرت علی فرماتے ہیں: ’’گناہ نہ کرنا توبہ کرنے سے آسان ہے۔‘‘ (بحارالانوار، ج۷۰، ص۳۶۴)
ایک مرتبہ انسان راہ چلتے کسی انجان ٹھوکر سے لڑکھڑا جاتا ہے اور ایک مرتبہ جان بوجھ کر یعنی جانتے بوجھتے ہوش و حواس کے ساتھ خود کو (ذلت، پستی اور معصیت کے گہرے) کنویں میں گرانا چاہے تو ان دونوں صورتوں میں درست اور غلط سمت کا تعین کرنا ہر باشعور انسان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں بشرطیکہ انسان کا دماغ کسی خود غرضی سے آلودہ نہ ہو اور آنکھیں کسی بے دینی میں اندھی نہ ہوگئی ہوں۔ بقول امام علی علیہ السلام: ’’آنکھ سے دیکھنے میں کوئی فائدہ نہیں، جب تک کہ بصیرت نہ ہو۔‘‘ (غرر الحکم، ج ۱، ص ۱۶۵) خدا ہم سب کو عقل و شعور کو استعمال کرتے ہوئے ہر بُرے عمل سے اجتناب کی توفیق عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ عمل صالح انجام دینے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین