اسلامی تحریکیںمضامین

مشرق وسطیٰ میں حزب اللہ کیخلاف صہیونی سعودی نیٹ ورکنگ

تحریر: عبدالرضا بای

آج مشرق وسطٰی دنیا بھر میں رونما ہونے والی اسٹریٹجک اور جیوپولیٹیکل تبدیلیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اس خطے کی سلامتی پر بہت سے عوامل اثرانداز ہو رہے ہیں۔ علاقائی سطح پر موجود بحرانوں نے ہمیشہ اس خطے میں کشمکش کا ماحول پیدا کیا ہے۔ مغربی ایشیائی خطے میں بحرانوں کے جنم لینے سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سرگرم کھلاڑیوں کی صف آرائی اور حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس خطے کی اہم تبدیلیوں میں سے ایک ان ممالک کا اپنی خارجہ پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہے، جو ایک زمانے میں اسرائیل کیلئے شدید خطرہ تصور کئے جاتے تھے، لیکن آج اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ممالک اسرائیل کی بولی بول رہے ہیں اور یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ عربی لہجے سے عبری زبان میں اسرائیلی مفادات کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال خلیج تعاون کونسل کی جانب سے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد قرار دینا ہے۔ تحریر حاضر میں مشرق وسطٰی میں روز بروز بڑھتے ہوئے سعودی – صہیونی نیٹ ورک کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس نیٹ ورک نے کیوں حزب اللہ لبنان کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے۔

مشرق وسطٰی میں سب سے بڑا چیلنج اس وقت پیش آیا جب عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے اس خطے میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس غاصب رژیم کی پیدائش کے بعد سے یہ خطہ ہمیشہ مختلف جنگوں اور سکیورٹی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ لہذا یہ کہنا درست ہوگا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مشرق وسطٰی میں بدامنی کی بنیادی ترین وجہ ہے۔ غاصب صہیونی رژیم درحقیقت ایک ایسی فوجی چھاونی ہے، جو اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنی موجودیت کا قانونی جواز پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اسرائیلی حکام اور لیڈران نے تخفیف اسلحہ اور ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق تمام بین الاقوامی کنونشنز کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور خطے میں موجود بحرانوں کو اپنی سکیورٹی اور مفادات کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ چونکہ اسرائیل خطے میں اپنی موجودیت کے غیر قانونی اور غیر فطری ہونے کے پیش نظر انجانے خوف کا شکار ہے، لہذا اس نے اپنے دفاع کی خاطر خطے میں عظیم نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نائن الیون کے مشکوک دہشت گردانہ اقدامات کے بعد اسرائیل نے جدید دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر کو کھلاڑی نیٹ ورک کے طور پر استعمال کیا ہے۔ حتٰی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بعض عرب ریاستوں کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے کو سراہتے ہوئے کہا: "جب تک اسرائیل نہیں چاہے گا "داعش” خطے کی جان نہیں چھوڑے گا۔” لہذا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم (سیاسی صہیونزم) کے بعد مشرق وسطٰی کو درپیش دوسرا بڑا خطرہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ہے۔ ان دو خطروں نے مشرق وسطٰی کے اکثر سیاسی جغرافیا کو بحران کا شکار کر رکھا ہے۔ مشرق وسطٰی کا سکیورٹی بحران ایک ایسا معما ہے جس کے حل کیلئے اس میں کارفرما بنیادی عوامل کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ داعش جیسے تنظیم یافتہ کھلاڑی نے علاقائی طاقتوں کی مدد اور حمایت سے عراق، شام اور لبنان کی قومی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ عمل ایک نیٹ ورک کی پیدائش کا نتیجہ ہے۔ موجودہ شواہد مغربی ایشیائی خطے میں سعودی – صہیونی نیٹ ورک کی خبر دے رہے ہیں۔

اب جبکہ واضح ہوچکا ہے کہ خطے میں موجود سعودی – صہیونی نیٹ ورک تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے ذریعے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس نیٹ ورک نے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے؟ مغربی ایشیا کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سعودی – صہیونی نیٹ ورک کا اصل ہدف اسلامی مزاحمت کی مرکزیت میں موجود طاقتور بلاک ہے۔ یہ نیٹ ورک اسلامی جمہوریہ ایران، حزب اللہ لبنان اور عراق اور شام میں سرگرم دیگر اسلامی مزاحمتی گروہوں پر مشتمل اسلامی مزاحمتی بلاک کو مشرق وسطٰی کے خطے میں شدید چیلنجز سے روبرو کرنے کا قصد رکھتا ہے۔ طاقت – مزاحمت اصول کے پیش نظر، جو یہ کہتا ہے کہ ہر وقت طاقت حاصل ہوگی، اس کا نتیجہ مزاحمت کی صورت میں نکلے گا، اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں اضافہ دشمن قوتوں کی پریشانی کا باعث بنا ہے اور وہ اسے مختلف مسائل میں الجھانا چاہتی ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل خطے میں اپنے اس نیٹ ورک کے باوجود مطلوبہ اہداف کے حصول اور اپنی کامیابی کے راستے میں "مزاحمتی نیٹ ورک” نامی مضبوط رکاوٹ کا احساس کر رہے ہیں۔ حزب اللہ لبنان نے شام بحران میں مداخلت کرکے مغربی ممالک کا حمایت یافتہ سعودی منصوبہ ناکام بنا دیا ہے، جس کے تحت شام کو توڑ کر نئی ریاستوں کا قیام عمل میں لایا جانا تھا اور جیسا کہ حال ہی میں بعض ممالک کی جانب سے اس بات کا اظہار بھی کیا گیا کہ شام کو فیڈریشن بنایا جائے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ اپنی تقریروں میں یمن کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔ عالمی استعماری طاقتوں نے یمن کیلئے بھی شام سے مشابہ منصوبہ تیار کر رکھا ہے اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ یمن میں بھی شام جیسے حالات پیدا کر دیئے جائیں۔ سعودی – صہیونی نیٹ ورک کیلئے یمن انتہائی درجہ کی اہمیت کا حامل ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ج
ب حزب اللہ لبنان نے یمن کے انقلابی گروہوں کی حمایت کرنا شروع کی تو ریاض اس قدر غصے کا شکار ہوا کہ لبنان آرمی کو دی جانی والی اپنی فوجی امداد منقطع کر دی۔ دوسری طرف ریاض کی کوشش ہے کہ لبنان میں اس بارے رائے عامہ ہموار کرے کہ لبنان آرمی کیلئے سعودی فوجی امداد کٹ جانے کا حقیقی ذمہ دار حزب اللہ لبنان ہے۔ مشرق وسطٰی میں نیٹ ورکنگ کی نوعیت میں تبدیلی اور حزب اللہ لبنان اور سعودی عرب میں ٹکراو میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ سعودی کنزرویٹو فرمانرواوں کا خاتمہ اور نئے فرمانروا ملک سلمان کی طرف سے جارحانہ پالیسیاں اپنایا جانا ہے۔ سعودی حکام کی جانب سے یمن سمیت خطے کے مختلف ایشوز سے متعلق ناپختہ اور غیر معقول حکمت عملی اختیار کئے جانے اور مشرق وسطٰی کے خطے میں نیٹ ورکنگ کی نوعیت تبدیل ہو جانے کے باعث آل سعود رژیم شدید گوشہ گیری اور تنہائی کا شکار ہوچکی ہے۔

اس وقت سعودی وہابیت یورپ کے اعلٰی سطحی حکام کی جانب سے شدید تنقید کا شکار ہے اور حتٰی امریکی صدر براک اوباما نے بھی سعودی عرب کو بے سابقہ انداز میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایسی صورتحال میں سعودی حکام نے ایک ساتھ دو قسم کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ وہ ایک طرف خطے میں موجود تنازعات کو شیعہ سنی جنگ کا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ سعودی حکام اپنے مقاصد کے حصول میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کا تعاون اور مدد حاصل کرنے سے بھی دریغ نہیں کر رہے۔ ہمیں سی آئی اے کے سابق سربراہ "مائیکل ہیڈن” کے اس بیان کو فراموش نہیں کرنا چاہئے، جس میں انہوں نے مشرق وسطٰی کے ممالک کو توڑنے کا ارادہ ظاہر کیا اور اسے اسلامی مزاحمت کو کمزور کرنے کا بہترین راستہ قرار دیا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں عالم اسلام کی پہلی ترجیح دو منحوس سازشوں یعنی صہیونزم اور داعش کو کنٹرول اور ختم کرنا ہے۔ جب تک ان دو منحوس قوتوں کا سایہ مشرق وسطٰی خطے پر موجود رہے گا، اس وقت اس خطے میں امن و امان اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ آج عالم اسلام میں صہیونی اور تکفیری طرز تفکر کی نظریاتی بنیادوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا میں ایسا شعور اجاگر کئے جانے کی ضرورت ہے، جس کی بدولت خطے میں سرگرم تکفیری دہشت گردوں کی حامی حکومتوں کا چہرہ آشکار ہوسکے اور ان کی ریاستی دہشت گردی کی حقیقت منظر عام پر آسکے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کی تقویت اور عالمی استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد پر مبنی سیاسی اسلام کے نظریات کا پرچار مشرق وسطٰی میں امن و امان کی بحالی اور سیاسی استحکام کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button