تحفظ نسواں بل، وفاق المدارس شیعہ نے اپنی سفارشات حکومت کو بھجوا دیں
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) وفاق المدارس الشیعہ پاکستان نے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ خان کے خط کے جواب میں حقوق نسواں بل میں ترامیم کیلئے سفارشات پنجاب حکومت کو ارسال کر دی ہیں۔ نائب صدر علامہ نیاز حسین نقوی اور سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری کی طرف سے سفارشات کے مسودہ میں مجموعی طور پر مذکورہ بل کی 10 شقوں پر اعتراضات لگا کر ان کی اصلاح کیلئے تجاویز پر مبنی سفارشات دی گئی ہیں تاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق قانون سازی کی جا سکے۔ مسودہ میں زور دیا گیا ہے کہ اسلام پیار و محبت اور خلوص پر مبنی معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے، عورت کو گھر کی ملکہ کی بجائے کنیز سمجھ کر اس پر تشدد کرنے کی کسی بھی مذہب میں اجازت نہیں۔
سفارشات میں خواتین پر ہونیوالے تشدد کو روکنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی تائید کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا منظور کردہ بل متنازع ہے، جس میں اسلامی تعلیمات اور معاشرتی قدروں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ قانون سازی کو ایوان میں منظوری کیلئے پیش کرنے سے پہلے علماء اور دانشوروں سے مشورہ کر لیا جائے تو معاشرے میں تلخی پیدا نہ ہوتی۔ قرآن و حدیث سے ماخوذ سفارشات کے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ اسلام مکمل نظام زندگی پر مشتمل دین ہے، جہاں عقائد حقہ دلیل کی بنیاد پر ثابت ہیں، وہیں حقوق انسانی کی مکمل حفاظت کی ضمانت بھی دیتا ہے البتہ مراسلے میں واضح کیا گیا کہ حقوق انسانی وسیع مفہوم ہے، جس میں مذہب کی بھی قید نہیں نیز اسلام نے خاندان کا مکمل اور مفصل نظام وضع کیا ہے جس میں خاندان کے ہر فرد کے حقوق اور فرائض کو معین کیا گیا ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اولاد کے والدین پر، والدین کے اولاد پر حقوق اور اسی طرح شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کو بھی مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر اسلام کے احکام پر عمل کیا جائے تو گھر جنت بن سکتا ہے البتہ تسلیم کیا گیا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ جہالت کا شکار ہے جس کی وجہ سے بعض علاقوں میں عورت کو گھر کی ملکہ اور شوہر کے امور خانہ داری میں وزیر کی بجائے غلام اور کنیز سمجھ کر تشدد کیا جاتا ہے، اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ سفارشات میں خواتین پر ہونیوالے تشدد کو روکنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی تائید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی کا منظور کردہ بل متنازع ہے، جس میں اسلامی تعلیمات اور معاشرتی قدروں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ قانون سازی کو ایوان میں منظوری کیلئے پیش کرنے سے پہلے علماء اور دانشوروں سے مشورہ کر لیا جائے، تو معاشرے میں تلخی نہ پیدا ہوتی۔