مضامین

شہدائے امامیہ

تحریر: توقیر ساجد

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ )راجہ اقبال حسین ایک نہایت ہی نفیس اور سلجھا ہوا نوجوان تھا، جو علماء کی صحبت کو بے حد پسند کرتا اور اس کا رجحان ہمیشہ دین کی طرف راغب رہتا۔ سید تنصیر حیدر ان کا دوست اور ہمراز بھی تھا اور تنظیمی ہم سفر بھی۔ دونوں ڈاکٹر محمد علی کے چاہنے والے بھی تھے۔ راجہ اقبال حسین سول میں تھرڈ ایئر کے طالبعلم تھے، ان کی تعلیمی قابلیت اور شرافت کو اساتذہ بھی تسلیم کرتے تھے، وہ اساتذہ کو ان کا مقام اور احترام دیتے تھے۔ یونیورسٹی میں آکر راجہ اقبال حسین نے تنظیمی ارتقاء اور خود سازی کا سفر جاری رکھا اور مرکزی جائنٹ سیکرٹری کی ذمہ داری تک پہنچے۔ یونیورسٹی میں ہی تنظیم کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور تعلیمی لحاظ سے سینیئر تصور حسین نقوی بھی تھے، وہ بھی سول کے فائنل ایئر کے طالبعلم تھے اور ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شیریں بیانی اور انقلابی انداز فکر کے معترف اور ان سے مربوط رہتے تھے۔ (ادارہ)

ہر شخص یا گروہ فقط اپنے ایک پہلو کو زندگی دیتا ہے، لیکن شہید اپنے تمام پہلوؤں اور اپنے تمام وجود کو زندگی بخشتا ہے۔ اس لئے پیغمبر اسلام ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر نیکی سے بڑھ کر نیکی موجود ہے، یہاں تک کہ آدمی خدا کی راہ میں شہید ہوجائے اور پھر شہادت سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں ہے۔ 80 کی دہائی میں ملت جعفریہ کو سیاسی و مذہبی سفر کے ساتھ ساتھ کئی امتحانات کا سامنا بھی رہا۔ مئی 1986ء میں ملت تشیع پاکستان اسیران کوئٹہ کے امتحان کے بعد خوشی بھی نہ منا پائی تھی کہ خدا نے اس بار پہلے سے بڑا امتحان لیا، خدا نے یہ امتحان قوم سے لیا تھا، لیکن آزمائش آئی ایس او سے ہی لی گئی۔ 2 مئی 1986ء کے روز عراق کے مجاہد عالم آیت اللہ مہدی الحکیم کا خطاب سننے کے بعد انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور کے طالب علم راجہ اقبال حسین اور ان کے دوست تنصیر حیدر یونیورسٹی ہاسٹل پہنچے۔ میزبان راجہ اقبال حسین تو امتحان کی تیاری میں مصروف تھے، سید تنصیر حیدر سرگودھا سے یہ خطاب سننے آئے تھے، ان کیساتھ اس دن جوہر آباد کے ابوالحسن شیرازی بھی تھے۔ یہ سب دوست رات کو یونیورسٹی میں جمع تھے اور ملکر کھانا کھانے لگے تھے۔

راجہ اقبال کا کمرہ نمبر 97 قاسم ہال میں تھا۔ اس میں یہ چار دوست اکٹھے تھے۔ اس سے پہلے یونیورسٹی میں کچھ فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیاں نوٹ کی جا رہی تھیں۔ ان لوگوں نے زبیر ہال میں واقع امامیہ مسجد کی لائبریری کو بھی جلانے کی ناپاک سازش کی تھی اور یونیورسٹی میں ایک اور پروگرام میں کچھ خطرناک تقاریر بھی کی گئی تھیں۔ ان باتوں کو یونیورسٹی انتظامیہ تک پہنچایا گیا تھا، مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، تو ایک ایسا وقوعہ سامنے آیا، جو آج بھی ہمیں تڑپا رہا ہے۔ برادران پر دھماکہ خیز مواد پھینکا گیا، جس سے کمرے میں آگ لگ گئی، جس کے نتیجے میں سید تنصیر حیدر و راجہ اقبال حسین موقعہ پر ہی شہید ہوگئے جبکہ تصور حسین نقوی جو مرکزی جنرل سیکرٹری تھے اور ابوالحسن شیرازی شدید زخمی ہوگئے۔

شہید سید تنصیر حیدر کا تعلق سرگودھا سے ہونے کی وجہ سے، ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال سے تعلق رکھنے والے راجہ اقبال حسین سے بھی انکا بہت گہرا رابطہ تھا، یہ دونوں سرگودھا میں تنظیمی روابط سے باہم مربوط ہوئے تھے، راجہ اقبال حسین نے گورنمنٹ کالج سرگودھا سے پری انجینئرنگ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا اور ان کا داخلہ اس وقت کی پاکستان کی معروف انجیئنرنگ یونیورسٹی (UET Lahore) میں سول ٹیکنالوجی میں ہوا تھا۔ انجیئنرنگ یونیورسٹی لاہور کاروان امامیہ کا اس لحاظ سے مرکز تھا کہ یہاں سے تنظیم کا آغاز ہوا تھا، یہاں کے چند دوستوں نے ہی اس کاروان کا سفر یہیں سے شروع کرکے اسے پورے پاکستان تک پھیلایا تھا۔ سید تنصیر حیدر اکثر ڈاکٹر محمد علی نقوی کے پاس لاہور میں آتے تھے۔ جب ان کے دوست راجہ اقبال حسین کا داخلہ لاہور کی معروف یونیورسٹی میں ہوگیا تو انہوں نے اس یونیورسٹی کو بھی اپنا دوسرا مسکن بنا لیا، وہ اکثر راجہ اقبال حسین کے مہمان ہوتے تھے۔

راجہ اقبال حسین ایک نہایت ہی نفیس اور سلجھا ہوا نوجوان تھا، جو علماء کی صحبت کو بے حد پسند کرتا اور اس کا رجحان ہمیشہ دین کی طرف راغب رہتا۔ سید تنصیر حیدر ان کا دوست اور ہمراز بھی تھا اور تنظیمی ہم سفر بھی۔ دونوں ڈاکٹر محمد علی کے چاہنے والے بھی تھے۔ راجہ اقبال حسین سول میں تھرڈ ایئر کے طالبعلم تھے، ان کی تعلیمی قابلیت اور شرافت کو اساتذہ بھی تسلیم کرتے تھے، وہ اساتذہ کو ان کا مقام اور احترام دیتے تھے۔ یونیورسٹی میں آکر راجہ اقبال حسین نے تنظیمی ارتقاء اور خود سازی کا سفر جاری رکھا اور مرکزی جائنٹ سیکرٹری کی ذمہ داری تک پہنچے۔ یونیورسٹی میں ہی تنظیم کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور تعلیمی لحاظ سے سینیئر تصور حسین نقوی بھی تھے، وہ بھی سول کے فائنل ایئر کے طالبعلم تھے اور ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شیریں بیانی اور انقلابی انداز فکر کے معترف اور ان سے مربوط رہتے تھے۔

اس عظیم سانحہ میں جاں بحق ہونے شہید سید تنصیر حیدر اور شہید راجہ اقبال حسین کو اسلام دوستی اور امریکہ دشمنی کی پاداش میں بربریت کا نشانہ بنایا گیا تھا، مگر شہداء کے خون کی یہ تاثیر ہے کہ پاکستان میں امت مسلمہ کی مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ کو سمجھا جاتا ہے، ان کو معلوم تھا کہ سامراج سے دشمنی کی پاداش میں کچھ بھی ممکن ہے، اس کا و
اضح ثبوت شہید تنصیر کی ڈائری کا ورق ہے، تنصیر حیدر نے چند ماہ قبل ہی اپنے ایک دوست کیلئے اپنی ڈائری میں تحریر کیا کہ امامیہ تنظیم میں شمولیت کے بعد جب اپنے رہن سہن کو دیکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے سو جوانوں سے بہتر ہوں، جب سے انقلاب اسلامی کے قریب گیا ہوں تو یہ آرزو پیدا یوئی ہے کہ شہید ہوجاؤں۔ شہید تنصیر کے یہ الفاظ آج بھی امامیہ نوجوانوں کے دلوں پر جلی حروف کی مانند روشن ہیں۔

عجب نہیں کہ مجھے نیزہ سوار ہونا ہے
عجب نہیں کہ مجھے جام زہر پینا ہے
سازشیں ہزار کرے عدوئے زیست مگر
مجھے دلوں میں صداقت کا بیج بونا ہے

دشمنان خدا یہی خیال کرتے ہیں کہ وہ افراد کے قتل کے ذریعے نور الٰہی کو بجھا دیں گے، مگر انہی شہداء کی بدولت، ظالموں کے ظلم کے باجود نور الٰہی روشن رہے گا۔ شہادتوں کا یہ سفر کربلا سے تازگی لیکر جاری ساری ہے۔ شہید تنصیر اور راجہ اقبال سے لیکر شہید حسینی و ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سے ہوتے ہوئے آج تک یہ تسلسل برقرا رکھے ہوئے ہیں۔ ان شہداء نے ہمیں روشنی کے مینار دکھائے، کیونکہ بقول شہید مطہری شہداء کی مثال شمع کی سی ہوتی ہے، جن کا کام دوسروں کو روشنی پہنچانا ہوتا ہے۔ جس طرح امام حسین نے میدان کربلا میں اپنے ساتھیوں پر فخر کیا، اسی طرح ملت تشیع پاکستان کو اپنے تمام شہداء پر فخر ہے اور آئی ایس او کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ شہداء کے خون کی وارث ہے۔ یاد رہے کہ انہی شہداء، جو بارش کا پہلا قطرہ بنے، کی یاد میں تنظیم اس ہفتہ کو ہفتہ شہداء کے طور پر مناتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button