مضامین

کیا شام میں سعودی عرب کا خواب پورا ہوگیا؟

تحریر: یوسف حسن مصری

ترجمہ: الف۔ع۔ جعفری

سعودی حکومت ایک تاریخی اسٹراٹیجکی کمپیٹیشن میں خود کو شام اور مصر کے مقابلے میں دیکھنا چاہتی تھی، لیکن طاقت کا شیرازہ بکھرنے سے اس ملک کا حال اب یہ ہوگیا ہے کہ پیسے کی کمی پوری کرنے کے لئے مالیات اور ٹیکس وصول کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا۔ غیر سرکاری تنظیموں نے اس ملک میں اپنی سرگرمیاں شروع کر دیں، قبائلی اختلافات آسمان چھونے لگے، پارٹیوں اور شخصیتوں میں اختلاف اوج پکڑنے لگا اور نتیجے کے طور پر دنیائے عرب میں اس ملک کی حیثیت و آبرو خاک میں ملتی جا رہی ہے۔ آل سعود کو ہمیشہ اس بات کا شدید صدمہ تھا کہ دنیائے عرب میں اس کی چودھراہٹ نہیں چلتی۔ اس وجہ سے اس نے تکفیری وہابی افکار کی حقیقت کو آشکار کرنے میں احتیاط سے کام لیا کہ کبھی عالم اسلام کے علماء کی جانب سے اسے شدید اللحن ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگرچہ سعودی عرب نے عربی ممالک کے ساتھ مقابلے کے رسمی مواقع ہاتھ سے نہیں جانے دیئے، لیکن اس وجہ سے کہ آل سعود کے پاس مصر، شام اور عراق کی مانند پختہ رہبروں کا فقدان تھا اور ہے، اسے اندرونی طور پر انتہائی کمتری کا احساس ہے، جس کو پورا کرنے کے لئے وہ ان ممالک کی باصطلاح تیشہ بہ ریشہ می زند، جڑیں کاٹنا چاہتا ہے۔

مشرق وسطٰی کے حالیہ پانچ سالوں کے حالات کی تبدیلی، سعودی حکمرانوں کے لئے ایک گولڈن چانس تھا کہ وہ اس تاریخی ننگ و عار کے دھبوں کو دھونے کی کوشش کرتے اور دنیائے عرب و اسلام میں ایک بنیادی رکن کی حیثیت اختیار کر لیتے۔ گذشتہ چند سالوں میں سعودی عرب نے اپنی خارجہ پالیسی کو بدلتے ہوئے دفاعی سیاست کے بجائے جارحانہ پالیسی اپنائی اور علاقے کے حالات کو بحران کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے بنیادی کردار ادا کیا۔ شامی حکومت کے مخالفین کی کھلی حمایت، شام سے باہر مخالف پارٹیوں کی منظم تربیت، ملک کے اندر مسلح افراد کی مالی امداد، ان کے لئے اسلحے کی فراہمی اور لاجسٹک سپورٹ، شام کے سیاسی نظام کے خلاف بین الاقوامی محاذ آرائی، شامی حکومت کو گرانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر اجلاسوں کا انعقاد اور آخرکار نام نہاد داعش مخالف اتحاد قائم کرکے بشار الاسد کو اپنے آگے جھکانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس راہ میں اپنا سارا سرمایہ صرف کر دیا۔ لیکن درحقیقت سعودی بادشاہت کو شام میں دو بڑی مشکلات کا سامنا ہے، ایک طرف سے وہ بشار الاسد کو حافظ اسد کی ثقافت کا وارث سمجھتی ہے، جو اتنی آسانی سے اس کے شکار میں آنے والا نہیں اور دوسری طرف سے بشار الاسد کو مزاحمت کا اصلی محور اور ایران کا اتحادی دیکھتی ہے، جو اس کی آنکھوں میں تنکے کی طرح کھٹکتا ہے۔

ایران کا ڈراونا خواب اس ملک میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے علاقے میں سعودی عرب کی مرکزیت کے خواب پر سایہ فکن ہوگیا، یہاں تک کہ بہت سارے مغربی تجزیہ نگار شام، عراق، لبنان، بحرین اور یمن میں سعودی عرب کے منفی کردار کو علاقے میں ایران کے نفوذ کے خلاف کھلی دشمنی سے تفسیر کرتے ہیں۔ یہ ایرانی شامی گٹھ جوڑ، شام کے حالیہ پانچ سالہ بحران کی وجہ سے روس کے تیسرے ضلع کی حیثیت سے شمولیت کے ساتھ ایک جیو اسٹریٹیجیک (Geostrategic) اور جدید سکیورٹی میں تبدیل ہوچکا ہے کہ جس نے سعودی عرب کی شام میں حاکمیت کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب کی موسمی رشوتیں، مصر کو اپنا پیرو نہ بنا سکیں، مختلف دہشتگرد ٹولیوں داعش، جبھۃ النصر، القاعدہ اور دوسرے دسیوں دہشتگرد گروہوں پر سینکڑوں ارب ڈالر کا اسراف سعودی عرب کے لئے رہگشا ثابت نہ ہوا اور آج امریکہ، ترکی، قطر، عرب امارات اور اسرائیل کی نیابت میں جنگ لڑنے والے دہشتگردوں کے ساتھ سعودی عرب بھی شکست کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور آخرکار شام میں بغاوتی حکمت عملی کے دلدل میں پھنس کر رسوائی کا منہ دیکھ رہا ہے۔

سلطنتوں کے عروج و زوال کے بارے میں پال کینیڈی کے نظریہ کی بنا پر امریکی براہ راست اپنے دشمنوں سے مقابلہ یا مطلوبہ علاقوں پر چڑھائی کی ہمت نہ رکھنے کی صورت میں مجبور ہیں کہ عربی سپاہیوں کو استعمال اور قومی ترقیاتی فنڈ کے صندوقوں کو مشرق وسطٰی میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے خالی کریں۔ یہ ناتوانی اور بے رغبتی، صرف امریکیوں سے مخصوص نہیں، بلکہ نیٹو اور مغربی ممالک مخصوصاً برطانیہ جس کا ہر جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہونا ضروری ہے، کو بھی شامل ہے۔ امریکہ نے گذشتہ پانچ سال میں یہ تجربہ حاصل کر لیا ہے کہ شام میں بغاوت مخصوصاً اب جب مزاحمتی محور اور شامی عوام بشار الاسد کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، دہشتگردوں کے ذریعے ممکن نہیں ہے، لہذا امریکہ کو اپنی لڑاکا یونٹوں کو شامل کئے بغیر ایک عربی غربی گٹھ جوڑ کے ذریعے شام کی دراندازی میں وارد ہونا پڑے گا، تاکہ شام کے راستے سے علاقے کی فتح کی کنجی اور مشرق وسطٰی میں اپنی بے آبروی کی عمارت کی تعمیر نو میسر ہوسکے۔

قطر اور عرب امارات تو دوسری صف میں کھیل کھیل رہے ہیں، لیکن سعودی عرب اور ترکی نے اپنی ہر چیز کو شام میں کامیابی کی دم سے باندھ رکھا ہے۔ ترک فوج نیٹو کے بغیر شام میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرسکتی، سعودی عرب یمن میں حوثی رضاکاروں کے ساتھ دست و گریباں ہے، اپنی ناکارہ زمینی فوج کے ذریعے وہ تیرہ مہینے کے عرصے سے یمن میں معمولی سی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکا اور صرف اپ
نے تین سو لڑاکا طیاروں کو امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی رہبری میں یمن کے مظلوم عوام پر بم برسانے میں مصروف عمل ہے۔ یمن کی جنگ کے دلدل میں پھنسنے کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی کے خدشات آل سعود کی ایک چہارم فوج کو اپنی طرف مشغول کئے ہوئے ہیں، لیکن بظاہر میڈیا کا دل خوش کرنے کے لئے، شام کے شمالی علاقوں اور عراقی سرحدوں پر ڈیڑھ لاکھ فوجی بھیجنے کی بات کرنا آل سعود کا ایک اور خواب ہے، جبکہ معلوم نہیں بھتہ خور چند ملکوں کی شراکت سے دس ہزار فوجی بھی اسے مل پائیں یا نہیں۔

سعودی عرب جانتا ہے کہ اس کی ناکارہ فوج شام میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکتی اور امریکہ بھی روس کے انتباہ کی وجہ سے اس ملک کی دلدل میں گھسنے اور مشرق وسطٰی میں عظیم جنگ کی ذمہ داری اٹھانے کی براہ راست جرائت نہیں کرسکتا۔ لہذا سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کو تل ابیب بھیجا گیا کہ اسرائیل اور صیہونی لابی کے سامنے دست نصرت دراز کریں۔ لیکن صیہونی حکام بھی سعودی چاپلوسیوں کو خوب سمجھ چکے ہیں اور کئی مرتبہ اس کا تجربہ بھی کرچکے ہیں، وہ کبھی بھی ایسی جنگ میں وارد ہونے کی کوشش نہیں کریں گے، جس میں دوسری جانب حزب اللہ ہو۔ لہذا ان کی یہ کوشش ہے کہ وہ دوسروں کو شام کے دلدل میں پھنسائے رکھیں اور اپنا مطلب نکالتے رہیں۔ جیسا کہ سعودی اور امریکی حکام جانتے ہیں کہ علاقے کی کسی بھی بڑی جنگ میں پہلا شکار اسرائیل اور خلیج فارس میں تیل کے کنویں ہوں گے، جس کا انتظار شام کے اسکڈ میزائل اور حزب اللہ کا زلزال شدت سے کر رہے ہیں، لہذا وہ ایسی غلطی کرکے اپنی نابودی کا سامان کبھی فراہم نہیں کریں گے۔

سعودی عرب کے سر پر جو جنون سوار ہے، وہ صرف اس کے بھتہ خور کٹھ پتلی اتحادیوں کی وجہ سے ہے، جو شام کی جنگ میں قربانی کا بکرا بن رہے ہیں اور وہ بھی تبھی تک سعودی حکام کے پیچھے پیچھے مے مے کرتے آئیں گے، جب تک اس سے بھتہ ملتا رہے گا۔ سعودی عرب کی یہ پالیسی اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گی، چونکہ شام میں جنگ بندی کو بھی ایک ہوشیار منصوبہ بندی کے تحت تکفیری، وہابی دہشتگردوں کی نابودی کے لئے ایک نیا مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ ترکی، سعودی عرب، لبنان اور اسرائیل بھی جنگ بندی پر کسی پابندی کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں، بلکہ صرف مجبوری کی حالت اور برائے نام دہشتگردی سے مقابلے کے مسئلہ سے گزرنے کے لئے نیز جنیوا میں ایک سیاسی پوائینٹ حاصل کرنے کے لئے یہ زہر کا گھونٹ پی رہے ہیں۔ جیسا کہ خود امریکیوں نے کہا کہ آئندہ کچھ دنوں میں اس جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو جائے گی۔ یقیناً شام پر آل سعود کی چودھراہٹ کا خواب یا صرف ایک آرزو بن کر رہ جائے گا یا اس تاریخی سعودی بادشاہ کی عمر کو کوتاہ اور صیہونی حکومت کو جہنم کے دہانے تک پہنچائے گا کہ اس صورت میں امریکہ کو بھی ناقابل جبران مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button