مضامین

درد مشترک میں مشابہت

تحریر: عمران خان

’’اللہ رب العزت کسی والد پر ایسا وقت کبھی نہ لائے، جب اس کی بیٹی کوئی سوال کرے اور والد کے ہاتھ خالی ہوں۔‘‘ سوشل میڈیا پر گردش کرتی اس پوسٹ کو لاکھوں لائیکس ملے ہیں۔ مذکورہ عبارت کے ساتھ شیئر ہونے والی تصویر میں غریب باپ اور بیٹی موجود ہیں، دونوں کی آنکھیں غیر معمولی طور پر چمکدار ہیں، سات، آٹھ سالہ معصوم بیٹی کی آنکھوں میں زندگی اور شرارت چمک رہی ہے، جبکہ والد کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہین کہ جب بیٹی کوئی سوال کرتی ہے تو باپ کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کی خوشی کی خاطر کچھ بھی کر گزروں، خواہش کا اظہار بعد میں کرے اور پوری پہلے کروں۔ یوں تو ہر رشتہ ہی اخلاص، پیار، انس کے جذبوں میں پرویا ہوتا ہے، مگر دنیا میں والدین اور اولاد کے رشتہ کا کوئی نعم البدل نہیں اور اس میں بھی آغوش ممتا کی تمازت، احساس زندگی ہی سہی مگر بیٹی سے والد کی محبت کا لفظوں میں بیاں ممکن ہی نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدۃ النساء العالمین نے جس گھر میں قیام فرمایا، اس مکان کو ہی بیت الحزن کہا گیا۔ یعنی پیغمبر اکرم (ص) کی جدائی سیدہ پر اتنی اثر انداز ہوئی کہ وہ مکان ہی حزن و ملال کی علامت بن کر رہ گیا، جہاں سیدہ (س) قیام پذیر تھیں۔ داستان کربلاء سیدہ سکینہ بنت الحسین (ع) کے ذکر کے بناء نامکمل ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں کی اپنی اپنی روایات، ثقافت اور اطوار ہیں، مگر والد کا اپنی اولاد بالخصوص بیٹی کیلئے پیار، درد، قربانی و شفقت کا جذبہ دنیا کے ہر خطے میں یکساں ہے۔ بیٹی اگر کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے اور والد بے بس ہو، تو والد (جوان ہو یا طویل العمر) کی حالت اس ضعیف کی طرح ہوتی ہے جو اپنے جسم کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہوتا ہے، یہی معاملہ اگر الٹ جائے کہ والد کسی مشکل امتحان میں ہو اور بیٹی بے بس تو بیٹی کی حالت اس مچھلی کی طرح ہوتی ہے کہ جسے پانی سے نکال کر صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر چھوڑ دیا جائے۔ پہلے پہل تو یہ مچھلی تڑپتی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ بالآخر وہ فقط منہ کھولتی اور بند کرتی ہے، یہ اس کے قریب المرگ ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔

اپریل کے آخری دنوں میں باپ اور بیٹی کی محبت کے پر درد رشتے کے دو عجب منظر دنیا نے دیکھے ہیں۔ ان مناظر نے ہر دیکھنے والی آنکھ کو نمناک کر دیا، مگر جو حرص، ہوس، مفادات، بے رحمی اور احکامات کے شہتیروں سے چمٹے ہیں، وہ ان مناظر کی مختلف توجیہات پیش کرتے رہے، کوئی اسے قوانین کی مجبوری، کوئی حقائق سے متصادم تو کوئی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں گم کرنے پہ کمربستہ دکھائی دیا۔ پہلا منظر 12 سالہ فلسطینی بچی دیما الواوی کی اسرائیلی جیل سے رہائی کا تھا، کہ رہائی کے وقت اس کا بے بس والد اپنی بیٹی کو گلے سے لگائے رو رہا تھا۔ کیا خبر دائما کے والد کے وہ خوشی کے آنسو تھے کہ اس کے جگر کا ٹکڑا زندہ سلامت اسے واپس ملی گئی، یا غم کے آنسو کہ 12 سالہ پھول سی بچی 2 ماہ درندہ صفت اسرائیلی فوج کی قید میں رہی۔ دائما اور اس کے والد کے آنسووں پر کسی مسلم حکمران کا دل نہیں پسیجا۔

واہ رہے عرب عالم اسلام کے حکمران اور تمہارے کئی کئی ملکی فوجی اتحاد۔۔ کاش کہ دائما الواوی کے مقابلے میں تم کسی اسرائیلی 22 سالہ خاتون کو دو دن کیلئے ہی سہی اپنی جیل میں رکھ کے دکھا دو۔ کہاں 12 سالہ بچی اور کہاں دو ماہ اسرائیل کی فوجی جیل میں اسارت، عالم عرب و عجم کے کسی رہنما کی زبان نہیں ہلی۔ کسی نے ناجائز، غیر قانونی درندہ صفت اسرائیل کے اس غیر انسانی فعل پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ دیما الواوی کو اسرائیلی فوج نے 9 فروری کو اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ سکول کا یونیفارم پہنے ہوئے تھی۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس کے پاس سے چاقو برآمد ہوا تھا۔ گرفتاری کے وقت دیما کو وحشیانہ طریقے سے زمین پر گرا کر اس کے ہاتھ پشت پر کلپ ہتھکڑی سے باندھے گئے تھے۔

اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق چاقو یا ٹریفک حادثات و حملوں میں اب تک 28 اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ اسی مد یا خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے 201 فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا۔ جن میں سے بیشتر کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ اسرائیلی فوج کے جبر و ستم اور فلسطینی مسلمانوں پر وحشیانہ تشدد کے وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر تو سبک رفتاری سے گردش کر رہے ہیں، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیائے اسلام کی رہنمائی کے دعویدار سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نہیں کرتے، جبھی تو 34 ملکی فوجی اتحاد ہو یا او آئی سی کانفرنس، خلیج کونسل تنظیم کی نشست ہو یا دیگر مسلم فورمز، کہیں بھی اسرائیلی مظالم کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اسرائیلی جیلوں میں اس وقت بھی سات ہزار سے زائد فلسطینی مسلمان قید ہیں، جن میں ساڑھے چار سو سے زائد بچے ہیں۔ ان بچوں میں ایک سو ایسے بچے بھی ہیں جن کی عمر چودہ سال سے بھی کم ہے۔

بین الاقوامی میڈیا کی مختلف رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ تفتیش کے نام پر ان بچوں پر شدید تشدد کیا جاتا ہے اور تشدد کے ذریعے اقرار جرم کرا کر انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے، جہاں سخت سزائیں ان بچوں کا مقدر بنتی ہیں۔ ان بچوں میں کتنی دائما الواوی تو ایسی بھی ہوں گی کہ جو شائد کبھی بھی زندہ اپنے والدین کو نہ مل پائیں۔ معلوم نہیں ان والدین کے دلوں پر کیا بیت رہی ہوگی اور خبر نہیں کہ یہ بچے اس
رائیلی زندانوں میں خشکی پر آئی مچھلی کی طرح ٹرپتے ہوں گے یا صرف سانس لیتے ہوں گے۔ دو ماہ کی قید میں 12 سالہ دائما پر اتنا تشدد کیا گیا کہ رہائی کے وقت وہ چل نہیں سکتی تھی۔ دائما کے والد کو تو یہ بھی خبر نہیں کہ اس جبر کے خلاف دنیا کی کونسی عدالت میں فریا د کرے، اللہ کی عدالت میں کیا فریاد کرے، کیونکہ وہ تو دلوں کے حال خوب جانتا ہے اور اس کی لاٹھی بھی بے آواز ہے۔

دوسرا منظر ایک روتی ہوئی بچی کی تصویر تھی، جس کی عمر بمشکل دس سال ہے، مگر دائما الواوی سے چہرے و صورت میں مشابہت رکھتی ہے۔ شائد کہ یہ مشابہت اس درد کی ہے، جو دونوں کے درمیان مشترک ہے۔ روتی، بلکتی دس سالہ صدف ہچکیوں کے درمیان ’’گرم ریت پر مچھلی کے مصداق‘‘ یہی بتاتی رہی کہ انہوں نے میرے پاپا کو اٹھا اٹھا کر مارا، بوٹوں سے، سنگینوں سے۔ میں پاپا کو بچانے کیلئے آگے آئی، مجھے بھی مارا۔ گھر کی عورتیں بھی غم و یاس کی تصویر بنی ہوئی، چہرے، ہاتھ پاوں کے نیل دکھاتی رہ گئیں۔ زار و قطار روتی دس سالہ صدف فلسطین یا کشمیر کی نہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ جس کے والد پرائمری ٹیچر ہیں، مگر بدقسمتی سے ان مزارعوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو اوکاڑہ میں اپنے حقوق مانگنے کی غلطی کر رہے ہیں، کہ برسوں سے جن کھیتوں کو وہ آباد کرتے رہے، جنہیں کاشت کرتے رہے، انہی کھیتوں کے اناج پر، ان درختوں کے پھل پر ان کا بھی حق ہے۔

ان زمینوں کے مالکان ’’وڈیرے، جاگیرداروں، نوابوں، چوہدریوں‘‘ کو یہ گوارا نہیں۔ اس لئے کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ’’مسلح بندوق برداروں ‘‘ کے ذریعے انہیں ان مزارعوں کو ذرا سیدھا کریں، حقوق مانگنے کے سنگین جرم میں کئی افراد گرفتار بھی ہوچکے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے تحت اور ان مزارعین میں سے 13 لاپتہ بھی ہوچکے ہیں۔ اوکاڑہ کی دس سالہ صدف نہیں جانتی کہ ان بندوق والوں کے خلاف دنیا کی کونسی عدالت میں فریاد کرے، خدا کی عدالت میں کیا فریاد کرے۔ کیونکہ وہ تو دلوں کے حال خوب جانتا ہے اور اس کی لاٹھی بھی بے آواز ہے۔ دائما اور صدف کے چہروں میں مماثلت ان کے درد مشترک کی بھی گواہی دیتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button