ایک اور احمقانہ تجویز: اسلامی نظریاتی کونسل کا مقصد کیا؟
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادراہ) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا ہے کہ ترغیب وترہیب کے نتیجے میں بیوی شوہر یا شوہر بیوی پر تشدد کرنے کاحق نہیں رکھتا تاہم مرد تنبیہ کے لیے عورت کو ہلکی سزا دے سکتا ہے۔ اسلام آباد میں تحفظ حقوق نسواں بل کی تیاری کے سلسلے میں مولانا محمد خان شیرانی کے زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے تین روزہ اجلاس کا دوسرا دور ہوا جس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے خواتین کے حقوق سے متعلق قانون منظوری سے قبل جب کہ پنجاب حکومت نے منظوری کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا لیکن دونوں صوبوں کے قوانین کا مسودہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین کے حقوق سے متعلق قانون کا مسودہ تیار کیا ہے جسے حتمی شکل دی جارہی ہے اس پر آئندہ اجلاس میں بھی غور کیا جائے گا۔ اس کے مطابق اگر خدا نخواستہ کوئی مرد مرتد ہوجائے تو تین دن کی مہلت کے بعد اسے سزا دی جائے گی لیکن خاتون مرتد ہوجائے تو اس کا قتل واجب نہیں۔ کوئی بھی خاتون اپنی مذہبی عبادات میں شریک ہونے کا پورا حق رکھتی ہے اور شوہر اس پر کسی پابندی کا حق نہیں رکھتا۔
محمد خان شیرانی احمقانہ اور متنازعہ تجاویز اور نظریات کی وجہ سے شہرت حاصل کرتے ہیں۔ خبر چھپوانے یا بحث میں رہنے کیلئے کوئی شخص کسی بھی قسم کا طرز عمل اختیار کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن اگر یہ کام مملکت پاکستان کے وسائل صرف کر کے اسلام اور عقیدہ کے نام پر کیا جائے گا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بطور چئیرمین محمد خان شیرانی کو وزیر کے مساوی رتبہ اور مراعات حاصل ہیں۔ وہ اتنی ہی تنخواہ پاتے ہیں۔ اعلیٰ عمارت میں شاندار دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ ایسی گاڑی میں سفر کرتے ہیں جس کا تصور بھی عام آدمی کیلئے محال ہے لیکن اسلام کی تشریح کے نام پر جہالت اور گمراہی اور براہ راست غلط توجیہہ اور ترجمانی کی ایسی مثالیں قائم کرتے ہیں کہ انسان حیرت سے انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ انہیں یہ پوزیشن ان سیاسی خدمات کے عوضانے کے طور پر حاصل ہوئی ہے جو ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ملک کے کسی بھی حکمران کی خدمت اور وفاداری کی صورت میں پاتے ہیں۔
آج کل جبکہ ملک بھر کی اپوزیشن اور عوام لیڈروں کی کرپشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور چاہتے ہیں کہ قومی دولت لوٹنے کے ہتھکنڈوں کا خاتمہ ہو سکے، تو مولانا فضل الرحمان وزیراعظم نواز شریف کا حق نمک ادا کرنے کیلئے ان کے سیاسی دشمنوں پر پھبتیاں کسنے ، جھوٹے سچے الزام لگانے اور کرپشن کو اسلامی لبادہ پہنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شاید ان کے اختیار میں نہیں ورنہ وہ یہ بیان بھی جاری کر دیں کہ نواز شریف کی کرپشن کی بات کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ ایسی خدمت کے عوض حاصل ہونے والے عہدے کی بنیاد پر مولانا شیرانی “حقیقی اسلام“ نافذ کروانے سے پہلے اس بات کا جواب دیں کہ کیا سیاسی رشوت میں ملے ہوئے عہدوں سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہو جاتی ہے۔ ان لوگوں نے شریعت کو موم کی ناک بنا لیا ہے جو ان کی خواہشات اور ضروریات کے مطابق مروڑی جا سکتی ہے لیکن ان حرکتوں سے ملک کے عام لوگ عقیدہ کے بارے میں گمرہی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی رویہ کسی نہ کسی شکل میں انتہا پسندی کا سبب بنتا ہے۔ اور ایک ایسے مزاج کو جنم دیتا ہے جہاں دلیل اور حجت سے کام نہیں لیا جا سکتا بلکہ عقیدہ کا نام لے کر حکم جاری کئے جاتے ہیں۔ جو ان احکامات سے سرتابی کا حوصلہ کرے اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ صادر ہو جاتا ہے۔
پرانے زمانے میں بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے کسی فتویٰ اور کسی مولوی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ آج کے زمانے میں ہمارا مولوی کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے ظالم کو درست ثابت کرنے میں اپنا علم اور صلاحیت صرف کرتا ہے۔ کوئی مولوی کبھی کسی اقلیتی گروہ پر حملہ کے بعد مذمت کرنے کیلئے سامنے نہیں آتا اور نہ متاثرین سے ہمدردی کرتا ہے، عورتوں کے ساتھ ظلم کے کسی واقعہ کو مسترد نہیں کرتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ ایسے سانحات کی ذمہ داری عورتوں کی بے پردگی پر ڈال کر معاملہ ختم کر دیا جائے۔ یہ لوگ کیوں کر ایک ایسے پیغام کو عام کر سکتے ہیں جو سب کیلئے انصاف ، مساوات ، تحفظ اور بھلائی کیلئے آیا تھا۔