امام خمینی (رہ) اور خواتین کے حقوق
تحریر: محسن داوری
خواتین کے بارے میں اسلام کے بعض مسائل اور احکام جیسے مردوں اور خواتین کے بعض حقوق میں پائے جانے والا اختلاف، کام (جاب) کرنے کا حق، معاشرے کے اجتماعی امور میں شرکت کا حق، طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہونا وغیرہ کا شمار ایسی اہم اسلامی تعلیمات میں ہوتا ہے، جو مغربی مفکرین کے خیال میں انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے اپنی تقاریر میں ان اعتراضات کا جواب دیا ہے، جنہیں ہم مندرجہ ذیل 6 کلی عناوین کے تحت بیان کریں گے۔
1۔ انسان ہونیکی حیثیت سے مرد اور عورت میں فرق کا نہ ہونا:
امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں اور مرد یا عورت کی حیثیت سے کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں بلکہ انسانوں کے ایک دوسرے پر برتری کا واحد معیار تقوی ہے۔ [سورہ حجرات/آیہ ۱۳] امام خمینی (رہ) کا عقیدہ ہے کہ "مرد اور عورت بعض حقوق و فرائض میں فرق کی بنیادی وجہ ان دونوں کے فطری تقاضوں سے مربوط ہے اور ایسے مسائل میں جو عورت کی شرافت اور مقام سے تنافی نہیں رکھتے، عورت کو پوری آزادی حاصل ہے۔” [صحیفہ امام، جلد ۳، صفحہ ۴۸]
2۔ اسلام اور عورت کی شخصیت کا تحفظ:
امام خمینی (رہ) کی نظر میں اسلام عورت کے کام کرنے، سفر کرنے اور کوئی پیشہ اختیار کرنے کا مخالف نہیں بلکہ اس چیز کا مخالف ہے کہ عورت ہوس پرست افراد کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے۔ وہ چیز جو اسلام کی نظر میں اہمیت رکھتی ہے، وہ عورت کی شخصیت اور پاکدامنی کا تحفظ ہے۔ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں یہ غلط تصور کہ اسلام عورت کو گھر کی چاردیواری میں محصور کر دینا چاہتا ہے، شاہ ایران اور اس کے ایجنٹوں کی جانب سے معاشرے میں پھیلائے ہوئے منفی پروپیگنڈے کا نتیجہ تھا۔ اسلام کیوں عورت کے حصول تعلیم، کام کرنے یا سفر کرنے کی مخالفت کرے گا؟ کیا وجہ ہے کہ عورت سرکاری کام انجام نہ دے سکے؟ [صحیفہ امام، جلد ۳ صفحہ ۴۸]
امام خمینی (رہ) کا عقیدہ تھا کہ عورت، مرد کی طرح ان تمام امور میں پوری طرح آزاد ہے اور عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔ ان کی نظر میں اسلام نہیں چاہتا کہ عورت ایک کھلونے یا گڑیا کی مانند مردوں کے ہاتھ میں ہو، بلکہ اسلام عورت کی شخصیت کی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور اسے ایک مفید اور سنجیدہ انسان بنانے کے درپے ہے۔ اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ عورتیں صرف مردوں کی ہوس پوری کرنے کا ذریعہ بنی رہیں [صحیفہ امام، جلد ۴، صفحہ ۱۰۳] بلکہ اسلام عورت کی ایک انسان کامل کے طور پر تربیت کرنا چاہتا ہے۔ [صحیفہ امام، جلد ۵، صفحہ ۱۷۷]
امام خمینی (رہ) کی نظر میں اسلام نے مردوں کی نسبت خواتین پر زیادہ توجہ دی ہے اور خواتین کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا ہے۔ حتٰی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں خواتین کو بعض ایسے حقوق بھی دیئے گئے ہیں جن پر مغربی دنیا نے بعد میں توجہ دی۔ مثال کے طور پر اسلام نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا، انہیں انتخاب کرنے اور منتخب ہونے کا حق دیا، خواتین اپنے تمام ذاتی امور میں مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہیں، جاب اختیار کرنے میں آزاد ہیں وغیرہ۔ [صحیفہ امام، جلد ۵، صفحہ ۲۲۱] آپ کی نظر میں اسلام نے جوا کھیلنے، شراب پینے اور ہیروئن جیسا نشہ کرنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ ان کاموں میں مردوں کیلئے مفسدہ موجود ہے۔
امام خمینی (رہ) کا عقیدہ ہے کہ اسلامی شریعت میں صرف خواتین پر ہی بعض پابندیاں عائد نہیں بلکہ مردوں پر بھی کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جن کا فائدہ خود انہیں ہی ہوتا ہے۔ یہ پابندیاں ایسے موارد میں ہیں جہاں کسی مفسدے کا خطرہ موجود ہو۔ امام خمینی (رہ) کے نقطہ نظر کے مطابق اسلام نے مردوں اور خواتین پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، وہ معاشرے کی صلاح میں ہیں اور ایسا ہرگز نہیں کہ ایک چیز معاشرے کیلئے مفید ہو اور اسلام نے اس سے منع کیا ہو۔ اسی طرح امام خمینی (رہ) کی نظر میں اسلام نے مردوں اور خواتین کے آزادانہ گھلنے ملنے کو بھی اسی لئے منع کیا ہے، تاکہ خواتین کا احترام اور ان کی سماجی حیثیت کو محفوظ بنا سکے، کیونکہ ایسا گھلنا ملنا ایک خاتون کی پاکدامنی اور تقویٰ کے منافی ہے۔
3۔ تربیت اولاد، خاتون کی حقیقی ذمہ داری:
اگرچہ امام خمینی (رہ) خواتین کے کام کرنے کے مخالف نہیں تھے، لیکن انہوں نے اپنی تقاریر میں جگہ جگہ اس بات پر تاکید کی ہے کہ عورت کی حقیقی ذمہ داری اولاد صالح کی تربیت ہے۔ انہوں نے عورت کے دامن کو انسان ساز قرار دیا
(رہ)
ہے۔ امام خمینی (رہ) نے ملک بھر سے آئی خواتین اسکول ٹیچرز کے ایک اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے ٹیچنگ کے شعبے کو انتہائی شریف اور محترم پیشہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنی اصلی ذمہ داری یعنی اولاد کی تربیت کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
"آپ خواتین اس وقت دو محترم اور قابل قدر پیشوں میں مصروف ہیں۔ ایک ٹیچنگ اور دوسرا اولاد کی تربیت اور اولاد کی تربیت تمام پیشوں سے افضل ہے۔ اگر آپ ایک اچھا انسان معاشرے کو دینے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ آپ کیلئے تمام دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔ اگر آپ ایک اچھے انسان کی تربیت میں کامیاب ہو جائیں تو آپ کا یہ عمل اس قدر بافضیلت ہے، جس کو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ پس آپ کا ایک پیشہ اولاد کی تربیت پر مشتمل ہے۔ ماوں کی گود ایسا دامن ہے، جہاں سے انسان تربیت پا کر نکلتے ہیں۔ یعنی انسان کی تربیت کا پہلا مرحلہ ماں کی گود ہے۔ چونکہ
ایک بچہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے محبت کرتا ہے اور ماں اور بچے کے درمیان پائے جانے والے تعلق سے زیادہ گہرا کوئی تعلق نہیں۔ لہذا بچے سب سے زیادہ اپنی ماوں سے سیکھتے ہیں۔ بچے جس قدر اپنی ماوں سے اثر لیتے ہیں، اتنا اثر نہ باپ سے لیتے ہیں، نہ اپنے ٹیچر سے لیتے ہیں اور نہ ہی اپنے استاد سے لیتے ہیں۔ لہذا آپ بچوں کی اسلامی اور انسانی اصولوں کے مطابق تربیت کریں، تاکہ جب آپ اسے اسکول یا معاشرے کو تحویل دیں تو وہ ایک صحت مند، بااخلاق اور باادب بچہ ہو۔” [صحیفہ امام، جلد ۷، صفحہ ۷۶]
4۔ عورت، انسان کی تربیت کرنیوالی:
امام خمینی (رہ) نے یہ نکتہ بیان کرنے کے بعد کہ اسلام نے مردوں سے زیادہ خواتین پر توجہ دی ہے، خواتین کو تمام خیرات و برکات کا منشاء قرار دیا ہے اور قرآنی تعلیمات کے مطابق عورت کو انسان ساز اور انسان کی تربیت کرنے والی کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر کسی قوم میں انسان ساز خواتین موجود نہ ہوں تو وہ قوم شکست اور زوال کے راستے پر گامزن ہو جائے گی۔ [صحیفہ امام، جلد ۱۱، صفحہ ۲۵۳] امام خمینی (رہ) کی نظر میں عورت کو اس کی ظاہری خوبصورتی میں مشغول کر دینا درحقیقت اس کی شان کے خلاف اور اس کی شخصیت کی توہین ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ عورت انسان کی ہر خوشبختی کا نقطہ آغاز ہے اور عورت کو انسان اور معاشرے کی تربیت کنندہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں عورت کی گود سے عظیم انسان جنم لیتے ہیں اور ہر ملک کی خوش بختی اور بدبختی اس میں موجود خواتین پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر خواتین اپنے بچوں کو صحیح اسلامی تربیت کی بنیاد پر پروان چڑھائیں تو اس کے نتیجے میں ان کا ملک آباد ہوسکتا ہے۔ [صحیفہ امام، جلد ۵، صفحہ ۱۸۵]
5۔ حجاب، نسوانی اقدار کا محافظ:
امام خمینی (رہ) حجاب کو نہ فقط آزادی کے خلاف تصور نہیں کرتے بلکہ اسے عورت کی اقدار کا محافظ قرار دیتے ہیں۔ [صحیفہ امام، جلد ۱۹، صفحہ ۱۲۱] آپ کی نظر میں اسلام میں بدحجابی کی مخالفت درحقیقت عورت کی بے غیرتی اور بے حیائی کی مخالفت ہے۔ [صحیفہ امام، جلد ۲۲، صفحہ ۱۶۱] آپ فرماتے ہیں: "اسلام نے عورت کی اسی قدر و قیمت کی حفاظت کی خاطر حجاب لینے میں ماں باپ کی مرضی کی شرط بھی نہیں رکھی بلکہ یہ دستور دیا ہے کہ اگر ماں باپ اپنی بیٹی کو حجاب نہ لینے کا حکم دیں تو اسے چاہئے کہ وہ اس حکم سے بے اعتنائی کرتے ہوئے حجاب کی پابند رہے۔” [استفتاآت امام خمینی، جلد ۳، صفحہ ۲۵۵]
6۔ حیا اور پاکدامنی، عورت کیجانب سے سماجی و سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کی بنیادی شرط:
امام خمینی (رہ) کی نظر میں عورت کی جانب سے سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں شرکت اگر اس کے حیا اور پاکدامنی سے منافی نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ آپ فرماتے ہیں: "آج خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے سماجی اور دینی فرائض انجام دیں اور اپنی پاکدامنی کی بھی حفاظت کریں۔ اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرتے ہوئے سیاسی و سماجی سرگرمیاں انجام دیں۔” [استفتاآت امام خمینی، جلد ۳، صفحہ ۶۹] اسی طرح جب امام خمینی (رہ) سے خاتون کی جانب سے گھر سے باہر جا کر کام یا جاب کرنے کے بارے میں شرعی حکم پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "اگر اس کا گھر سے باہر جا کر جاب کرنا اس کی گھریلو زندگی اور شوہر کے حقوق سے منافی نہ ہو تو حجاب کی پابندی کرتے ہوئے اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن خیال رہے کہ واجبات کی ادائیگی کے علاوہ کسی اور کام کیلئے عورت کا گھر سے نکلنا اس کے شوہر کی اجازت کے ساتھ مشروط ہے۔” [استفاآت امام خمینی، جلد ۳، صفحہ ۳۴۸]