یمن کے خلاف سعودی اتحاد کے جنگی جرائم، ایک قانونی جائزہ
تحریر: سعید اردکانی
26 مارچ 2015ء کے دن سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد نے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کیا۔ آج اس جارحیت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس حملے کا مقصد یمن کے مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی کو اقتدار میں واپس لانا اور انصاراللہ یمن کا خاتمہ بیان کیا گیا تھا۔ اس مدت میں سعودی اتحاد نے یمن کے خلاف ایسے اقدامات انجام دیے ہیں جنہیں شدید جنگی جرائم کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدامات سویلین افراد کے قتل عام سے لے کر مذہبی مقامات، آثار قدیمہ اور اسپتالوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنانے پر مشتمل ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے اعلان کیا ہے کہ یمن کے عوام کی معیشتی اور میڈیکل صورتحال شدید بحرانی حالت اختیار کر چکی ہے۔ لیکن اب تک کسی بین الاقوامی ادارے نے سعودی اتحاد کے ان جنگی جرائم کی مذمت نہیں کی اور ان پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جنگی جرائم، آزاد اور خودمختار ملک کے خلاف فوجی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے مفاہیم کو یکسر بھول چکے ہیں۔ ان کی اس مجرمانہ خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک جیسی عالمی طاقتیں ان جنگی جرائم کے ارتکاب میں آل سعود رژیم کی حمایت اور پشت پناہی میں مصروف ہیں۔
سعودی اتحاد کے جنگی جرائم کے چند نمونے:
بہت سے قانونی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے یمن کے خلاف سعودی جنگی جرائم کے ارتکاب کی تصدیق کی ہے۔ ان کی رپورٹس میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے کہ سعودی جارح فوج اور جنگی طیاروں نے یمن میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کے گھروں، بازاروں، اسپتالوں، اسکولوں اور غذائی مواد کے کارخانوں اور ذخیروں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر چند نمونے درج ذیل ہیں:
1۔ 13 مارچ 2015ء کو یمن کے ایک بازار پر سعودی جنگی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں 106 عام شہری جاں بحق ہو گئے جن میں 24 بچے بھی شامل تھے۔ اسی طرح مستبا کے علاقے میں واقع "بازار الخمیس” پر سعودی طیاروں نے بمباری کر دی جس کے نتیجے میں 97 عام شہری جاں بحق ہو گئے جن میں 25 بچے بھی شامل تھے۔
2۔ سعودی سربراہی میں یمن مخالف اتحاد کی جارحیت کے دوران بڑے پیمانے پر ممنوعہ ہتھیاروں جیسے "کلسٹر بم” کا استعمال کیا گیا۔ سب اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کلسٹر بم کا استعمال جنگی جرائم کے واضح مصادیق میں سے ایک ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ” نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ سعودی جنگی طیاروں نے یمن کے صوبوں عمران، الحدیدہ، صنعا اور صعدہ میں "کلسٹر بموں” کا استعمال کیا ہے۔ یاد رہے کہ 2008ء میں دنیا کے 118 ممالک کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے میں کلسٹر بموں کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق سعودی عرب نے یہ کلسٹر بم امریکہ سے خریدے ہیں۔ سعودی عرب امریکہ سے اسلحہ کے بڑے خریداروں میں شمار ہوتا ہے۔ امریکی کانگریس کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے 2010ء سے 2014ء کے درمیان امریکہ سے 90 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کے اسلحہ کے ڈائریکٹر سٹیو گاس نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب کو کلسٹر بم بیچے ہیں لیکن یہ شرط رکھی تھی کہ وہ ان کو آگے کسی ملک کو نہ بیچے۔
3۔ یمن میں مساجد، مذہبی مقامات، تاریخی مقامات، میوزیم وغیرہ پر ہوائی حملے اس ملک کے خلاف جارحیت کے دوران سعودی اتحاد کے جنگی جرائم کا ایک اور نمونہ ہیں۔ یمن کے آثار قدیمہ فاونڈیشن کے صدر مہند السیانی نے کہا ہے کہ یمن کے خلاف جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک سعودی جنگی طیارے 25 اہم تاریخی مقامات کو بمباری کے ذریعے نابود کر چکے ہیں۔ یمن کے شہر صعدہ، صنعا، مارب وغیرہ ایسے مقامات ہیں جو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو میں آثار قدیمہ کے طور پر رجسٹر ہو چکے ہیں۔ سعودی اتحاد ان شہروں کو شدید بمباری کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ مارب کا ڈیم تاریخی اعتبار سے انتہائی اہم جانا جاتا ہے جسے سعودی جنگی طیاروں نے ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ کئی بین الاقوامی اداروں جیسے اسلامی عالمی امن فورم اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر بھی یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصدیق کر چکے ہیں۔
4۔ اسپتالوں پر ہوائی حملے سعودی جنگی جرائم کا ایک اور نمونہ ہیں۔ صوبہ صعدہ میں شیارا اسپتال پر حملہ ان میں سے ایک ہے۔ اسی طرح سعودی اتحاد نے یمن کے اسکولوں اور تعلیمی مراکز کو بھی ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے سامنتھا پاور کے مطابق یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے دوران اب تک 700 اسکول اور تعلیمی مراکز تباہ ہو چکے ہیں۔
5۔ یمن کے خلاف جارحیت میں سعودی اتحاد کے جنگی جرائم کا ایک اور نمونہ عام شہریوں، خواتین اور بچوں کا قتل عام ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے "یونیسیف” نے 29 مارچ کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے دوران اب تک 934 بچے جاں بحق جبکہ 1356 بچے زخمی ہو چکے ہیں۔ سعودی اتحاد کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اب تک 9400 یمنی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 4356 خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسی طرح یمن جیسے غریب ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی نیوز ویب سائٹ "الساعہ” کی جا
نب سے شائع کردہ ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یمن کے خلاف جاری جنگ میں اب تک 1086 بچے، 1508 خواتین، 3485 مرد جاں بحق جبکہ 1942 بچے، 1552 خواتین اور 11149 مرد زخمی ہو چکے ہیں۔
سعودی جنگی جرائم کے ثبوت کیلئے شواہد و مدارک:
یمن کے خلاف سرگرم سعودی اتحاد کی جانب سے انجام پانے والے جنگی جرائم کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شواہد و مدارک موجود ہیں۔ بین الاقوامی شواہد و مدارک جیسے اقوام متحدہ کا چارٹر (آرٹیکل 1 اور 2، شق 4، آرٹیکل 41 اور 42)، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314 ان اقدامات کو جنگی جرائم قرار دینے کیلئے کافی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314 میں آزاد اور خودمختار ریاستوں کے خلاف فوجی جارحیت کی تعریف کی گئی ہے جس کے مطابق سعودی عرب ایک جارح قوت گردانا جاتا ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کسی ملک کی جانب سے رسمی درخواست کے بغیر اس ملک میں حاکمیت میں تبدیلی کی خاطر مسلح افواج کو بروئے کار لانا فوجی جارحیت ہے۔ اسی طرح روم میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قانون کے آرٹیکل 7 میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مصادیق کا تعین کیا گیا ہے۔ موثقہ رپورٹس کے مطابق یمن کے 85 فیصد شہری اس وقت انسانی امداد کے شدید محتاج ہیں۔ ملک کے سخت اقتصادی حالات اور دوائیوں کی شدید کمی اور میڈیکل سہولیات کے تقریبا نہ ہونے کے باعث یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جنگ کے مزید طولانی ہونے سے بڑی تعداد میں یمنی شہریوں کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جارح سعودی اتحاد کی جانب سے یمن میں ہر قسم کی انسانی امداد کو روک دیے جانے کے باعث یہ ملک ایک بڑے انسانی سانحے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ سعودی اتحاد کا یہ اقدام بھی انسانیت کے خلاف جرائم کا واضح مصداق ہے۔ ذیل میں ان قانونی شواہد و مدارک کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے:
1۔ اقوام متحدہ کا چارٹر: چارٹر کے آرٹیکل 4 شق نمبر 2 میں کسی بھی ملک کی جانب سے دوسرے ملک کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال یا استعمال کی دھمکی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح آرٹیکلز 39، 41، 42 اور 51 میں فوجی جارحیت کی تعریف کی گئی ہے۔ دوسری طرف آرٹیکل 51 میں جائز دفاع کا ذکر کیا گیا ہے جس کی رو سے یمن کے دفاع میں مصروف انصاراللہ یمن کی دفاعی سرگرمیوں کو قانونی جواز حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا قبضہ ہے جو اپنی ویٹو پاور سے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کر سکتے ہیں۔
2۔ شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کا بین الاقوامی معاہدہ: اس معاہدے کے آرٹیکل 1 کی رو سے تمام آزاد اور خودمختار ممالک کو اپنے فیصلے خود کرنے کا حق حاصل ہے اور دیگر ممالک ان کے اندرونی مسائل میں مداخلت کا حق نہیں رکھتے۔ لہذا اس معاہدے کی روشنی میں یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی فوجی جارحیت غیرقانونی ہے۔
3۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کا قانون: اس قانون کے آرٹیکل 7 اور 8 میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مصادیق کا تعین کیا گیا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 5 میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ عدالت ایسے جرائم کی تحقیق اور ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس قانون میں بیان کردہ مصادیق کے مطابق یمن کے خلاف جارحیت کے دوران سعودی اتحاد کے جنگی جرائم کی تصدیق ہو جاتی ہے لہذا بین الاقوامی فوجداری عدالت کی قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان جرائم پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سعودی جارح رژیم کے خلاف فوری کاروائی کرے۔
4۔ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عمومی قوانین: انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی عمومی قوانین کی روشنی میں بھی یمن کے خلاف جارحیت کے دوران سعودی اتحاد کئی جنگی جرائم کا مرتکب قرار پایا ہے۔ ان قوانین میں کسی بھی جنگ کے دوران فوجیوں اور سویلین افراد، فوجی مراکز اور غیرفوجی مراکز اور فوجی اموال اور غیرفوجی اموال کے درمیان فرق کا خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یمن کے خلاف جنگ میں جارح قوتیں جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی جنگی طیاروں نے یمن میں بمباری کے دوران فوجی مراکز اور غیرفوجی مراکز اور فوجیوں اور سویلین افراد میں فرق رکھے بغیر ان سب کو نشانہ بنایا ہے۔
اسی طرح انسانی حقوق سے متعلق عمومی بین الاقوامی قوانین میں اس امر پر تاکید کی گئی ہے کہ جنگ کے دوران میڈیکل مراکز جیسے اسپتال، مذہبی مقامات جیسے مساجد، تاریخی مقامات جیسے میوزیم اور آثار قدیمہ، تعلیمی مراکز جیسے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیاں اور ملک کا انفرااسٹرکچر جیسے ہوائی اڈے، پاور پلانٹس، کارخانے وغیرہ کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ لیکن یمن کے خلاف فوجی جارحیت کے دوران سعودی جنگی طیاروں نے بارہا اسپتالوں، مساجد، تعلیمی مراکز، تاریخی مقامات اور یمن کے انفرااسٹرکچر کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف انسانی حقوق سے متعلق عمومی بین الاقوامی قوانین میں جنگ کے دوران غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ ان غیر روایتی ہتھیاروں میں جوہری ہتھیار، کیمیائی ہتھیار، حیاتیاتی ہتھیار، فاسفورس والے ہتھیار، کلسٹر بم اور تمام ایسے ہتھیار جو انسانی بدن کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کر دیتے ہیں، شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور انسانی
حقوق کے ہائی کمیشنر جیسی بین الاقوامی تنظیمیں اس امر کی تصدیق کر چکی ہیں کہ سعودی رژیم نے یمن کے خلاف جنگ میں کلسٹر بموں کا استعمال کیا ہے لہذا اس مجرم رژیم کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہ جاتا۔
5۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314: 14 دسمبر 1974ء کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جو قرارداد نمبر 3314 کے نام سے معروف ہے۔ اس قرارداد میں کسی بھی آزاد اور خودمختار ملک کے خلاف فوجی جارحیت کی تعریف اور وضاحت کی گئی ہے۔ اس قرارداد کے آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 8 کی شقوں 5، 9 اور 10 میں فوجی جارحیت کی تعریف اور اس کے مصادیق کا تعین کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 1 میں فوجی جارحیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: کسی بھی حکومت کی جانب سے دوسرے ملک کی قومی سلامتی یا خودمختیاری اور اس کی حاکمیت کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال جارحیت محسوب ہو گی۔ لہذا اس تعریف کی روشنی میں سعودی رژیم کی سربراہی میں تشکیل پانے والے اتحاد کی جانب سے یمن کے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کھلی جارحیت ہے اور بین الاقوامی عدالت میں اس کے خلاف عدالتی کاروائی ہونی چاہئے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت اور سعودی جنگی جرائم:
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قانون کے آرٹیکل 5، 7 اور 8 کے مطابق یہ عدالت جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف انجام پانے والے جرائم اور جارحیت کے خلاف عدالتی کاروائی کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ لہذا یہ عدالت از خود نوٹس لیتے ہوئے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے یمن کے خلاف سعودی اتحاد کے جنگی جرائم پر کاروائی کر سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سعودی رژیم اور یمن کے خلاف جارحیت میں شریک جارح ممالک کو امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسی عالمی استعماری طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جو سلامتی کونسل میں اپنا اثرورسوخ اور ویٹو کا ظالمانہ اختیار استعمال کرتے ہوئے ان مجرم حکومتوں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں آنے دیتے۔ لہذا بین الاقوامی فوجداری عدالت کو چاہئے وہ یمن کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث حکومتوں کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئے ضروری کاروائی عمل میں لائے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اہم جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کے خلاف عدالتی کاروائی کا حق رکھتے ہیں۔ لہذا یہ ممالک بھی بین الاقوامی اداروں سے یمن میں انجام پانے والے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
نتیجہ گیری:
اس وقت یمن کی اقتصادی، فلاح و بہبود اور صحت سے متعلق صورتحال شدید بحران کا شکار ہے۔ سعودی اتحاد کی طرف سے یمن کے خلاف فوجی جارحیت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس مدت میں یمن کا انفرااسٹرکچر اور اقتصادی اور میڈیکل کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور 85 فیصد عوام انسانی مدد کی محتاج ہیں۔ بین الاقوامی اداروں نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی قانونی اور فوجداری اداروں نے پراسرار اور مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق سے متعلق تمام مفاہیم اور اصول فراموش کر چکے ہیں۔ لیکن عالمی رائے عامہ حقائق پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس امر سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ بین الاقوامی قانونی و عدالتی اداروں پر امریکہ کا تسلط ہے اور جب تک جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے وہ ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کر سکتے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، بین الاقوامی فوجداری عدالت، عالمی ریڈ کراس کمیٹی، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر انسانی حقوق سے متعلق عالمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پہلی فرصت میں یمن کے خلاف سعودی اتحاد کے جاری جنگی جرائم کو روکنے کیلئے بھرپور اور موثر اقدامات انجام دیں۔