ماہ رمضان المبارک اور بھوک ہڑتال
تحریر: مولانا غلام حر شبیری (لندن)
ماہ مبارک کا آغاز ہوا اور ہر مسلمان نے اس بابرکت مہینے کا استقبال کیا، دعائیں مانگیں، یہ مہینہ اولیاء خدا کی تمناؤں اور حسرتوں کا مہینہ ہے، اس مہینہ کے حصول کے لئے اہل بیت اطہار علیہم السلام دعا و مناجات کرتے تھے اور اس کے لئے ماہ رجب و شعبان كو مقدمہ قرار ديتے تھے، بہت سے لوگ ماہ رمضان کے آنے سے پہلے گھروں کا ماحول بناتے ہیں، بہت سے مساجد کو سجاتے ہیں اور کچھ مومنین خرید و فرخت کرکے اپنے بچوں کے لئے اچھے سے اچھے کھانے خریدتے ہیں، تاکہ ان کے بچے شوق سے روزے رکھ سکیں، کچھ لوگ دوسروں کو افطاریاں دینے کے لئے اہتمام کرتے ہیں، علماء اعلام اس مہینے میں قلوب مومنین کی آمادگی کے باعث اسے تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا بہترین مہینہ سمجھتے ہیں۔ لہذا مسجدیں، مدارس اور امامبارگاہیں آباد ہو جاتی ہیں، لیکن پاکستان کی سرزمین اسلام آباد نے ایک عجیب انداز میں ماہ مبارک رمضان کا اسقبال کیا ہے، جسے نہ اپنے بچوں کی فکر ہے اور نہ ہی اپنے گھر کی خرید و فروخت کی، نہ اس نے کسی مسجد و مدرسہ کو انتخاب کیا اور نہ ہی اس نے افطاریوں کے لئے دستر خوان بچھائے، بلکہ اس نے بھوک کے ساتھ گھر سے باہر ایک کھلے میدان میں ایک کیمپ کے سائے میں 13 مئی سے سختیاں برداشت کرکے اپنے جسم کا کئی گنا وزن مظلوموں کی نجات کے لئے قربان کرکے اپنے نحیف جسم کے ساتھ ماہ خدا، ماہ رحمت و برکت اور مغفرت کا آغاز کیا ہے۔
اس مرد مجاہد نے کئی سال پہلے یوم القدس کے دن فلسطینی مظلوموں کی حمایت کے جلوس پر پتھر اور اینٹ سے کئے گئے حملے میں اپنی ایک آنکھ کی قربانی دی اور اس عالم مجاہد نے گذشتہ ایک دھائی اپنی قوم کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ کوچہ کوچہ، قریہ قریہ، دور افتادہ علاقوں میں سفر کیا، کبھی گلگت اور کبھی بلتستان، کبھی سندھ کے پسماندہ علاقوں میں مومنین کے پاس جاکر اور کبھی کوئٹہ میں شہداء کے جنازوں کے ساتھ کئی دنوں تک کھلے آسمان تلے بیٹھ کر اور کبھی شہداء کے خانوادوں کی دلداری کرکے مسلسل خدمت کی۔ میں نے ذاتی طور پر انہیں گذشتہ سالوں میں کبھی آرام سے بیٹھے نہیں دیکھا، آج کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہر روز گرنے والی لاشوں اور ہمارے جوانوں کے گرنے والے جنازوں نے اس غیور، بہادر اور شجاع عالم باعمل کے دل کو چھلنی کر دیا اور اس نے اپنے اوپر بھوک مسلط کرکے اپنی جان پر کھیل کر، اپنے سکون و آرام کو چھوڑ کر، اپنے گھر بار، اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر، مسجد و مدرسہ کو چھوڑ کر، آرام و سکون سے سونے والے عمامہ بہ سر لوگوں کو چھوڑ کر، جو اپنے اپنے مدرسوں اور تقریروں پہ بڑا فخر کرتے ہیں اور اپنی ہی تقاریر کو دنیا میں نشر کرنے میں مصروف ہیں، ان سب کو خیر باد کہہ کر، سراپا مجسم درد ملت بن کر قوم و ملت کی بیداری کا امتحان بن بیٹھا ہے۔
میرا سلام ہو تجھ پہ اے فرزند قرآن و عترت، اے فرزند کربلا و عاشورا، اے امام خمینی کے حقیقی فرزند، اے یادگار شہید علامہ عارف حسین الحسینی، اے فخر شہید علامہ عباس موسوی اور شہید آیت اللہ باقرالصدر، اے صبر و استقامت کے پہاڑ، ہمارا تجھ پر سلام ہو، ہمارا سلام تیرے صبر و حوصلے پر اور ہمارا سلام اس جسم پہ جو آج مظلوم کی حمایت میں اور ظالم کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی چٹان کی طرح ڈٹا ہوا ہے، آج میں اپنے ملک کے دینی مدارس، علماء کرام، ذاکرین و خطباء سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ابھی تک ہمارے ملک میں مسلسل بہنے والے شہداء کے خون نے ہمارے لئے حجت تمام نہیں کی؟ کیا ہر روز اٹھنے والے جنازوں نے ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجوڑا؟ کیا آئے دن یتیموں کی آہ و فریاد نے ہماری آنکھیں نہیں کھولیں؟ کیا ہزاروں بیواوں کا در بہ در فریاد کرنا اور لوگوں کے گھروں میں کنیزوں کی طرح کام کرنا ہمارے لئے کافی نہیں ہوا؟
کیا مختلف علاقوں سے لوگوں کا ہجرت کر جانا اور آبادیوں کا خالی ہو جانا، ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں؟ کیا کئی لوگوں کا خوف کی وجہ سے مذہب چھوڑ دینا کافی نہیں؟ اور آج جب ہمارے خلاف ہمارے ملک میں بڑی بڑی سازشوں کا احساس کرکے اس مرد مجاہد علامہ راجہ ناصر عباس نے اپنی قوم میں دفاع اور اپنی ملت کے حقوق کی بازیابی کے لئے ایک عظیم تحریک کا آغاز کیا ہے اور آج کئی دنوں سے اپنی صداقت کو ہر عام و خاص سے منوا لیا، اپنے مسلسل مشقت کے اس سفر کو ماہ مبارک کے مہینے میں بھی جاری رکھا ہوا ہے، تو کیا اس عالم باعمل اور مجاہد خستگی ناپذیر کے اس جہاد نے ہمارے لئے حجت تمام نہیں کر دی؟
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
تیرے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رُہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
میں اپنی قوم کے علماء ربانی، اساتید محترم، خطباء و ذاکرین، ملت کے عمائدین، ذمہ دار افراد اور جوانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آیئے ہم سب اپنے اپنے فریضے کو ادا کریں اور اس مرد مجاہد کی اس مجاہدت میں اس کا ساتھ دیں، آیئے سب اٹھیں اور اپنی قوم کو ظلم و ستم سے نجات دلا دیں، اٹھیں اور اپنی قوم کی سربلندی اور عظمت کے لئے اپنے قدم کے ساتھ قدم ملائیں اور اس ماہ مبارک رمضان کو اپنی ملت کے مقدر کو بدلنے کا مہینہ قرار دیں۔ آیئے اس مہینہ میں اپنی قومی بیداری کے ساتھ اپنا مستقبل رقم کریں، یہ ایک ماہ رمضان ہمارے قومی مقدر کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔ خدایا اس مرد مجاہد کو ہمت، قوت اور جرات عطا
کر اور اپنی ملت کی رہبری کے لئے بصیرت عطا فرما۔
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو