مضامین

امریکی، دنیا کی خوفزدہ ترین قوم

تحریر: فاینین کننگ ہام (Finian Cunningham)

دوسروں کی نظر میں امریکہ ایک غیرمعمولی اور استثنائی ملک ہے۔ امریکی، زمین پر بسنے والی ایسی خوفزدہ ترین قوم ہے جو گذشتہ چند عشروں سے جنون آمیز پروپیگنڈے کی زد میں ہے اور انہیں مسلسل دشمنوں اور اجنبی نظریات سے خبردار کیا جا رہا ہے۔ لہذا اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں کہ اس ملک کی بظاہر شہری آزادی ایسی ناگوار اور خوفناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ امریکی حکمرانوں نے اپنی عوام کی اکثریت کو ایک مجازی قیدخانے میں قید کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ بظاہر شہری آزادی دوسروں کے دھوکے کا باعث بن سکتی ہے۔ سنیما کے معروف ایکٹر جارج کلونی نے گذشتہ ہفتے کینز فلم فیسٹیول کے دوران ایک پریس کانفرنس میں اپنی نئی فلم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اچانک موضوع سخن بدلا اور امریکہ کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں اظہار خیال کرنے لگے۔ جارج کلونی جو امریکہ کی لبرل پالیسیوں کے حامی کے طور پر معروف ہیں اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کے سخت حامی تصور کئے جاتے ہیں، نے پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ ارب پتی صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرامپ نومبر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

جارج کلونی نے ڈونالڈ ٹرامپ کو ایک ایسا دھوکے باز شخص قرار دیا جو عوام میں خوف اور فرقہ وارانہ تناو ایجاد کر کے نسل پرستی اور اجنبی فوبیا کو فروغ دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ان کا یہ نقطہ نظر اتنا بھی غیر منصفانہ نہیں۔ لیکن یہاں میرا مقصود ڈونالڈ ٹرمپ کی سیاسی کامیابی کے بارے میں اس ایکٹر کی پیشین گوئی نہیں بلکہ جارج کلونی کا یہ جملہ ہے کہ امریکی عوام ہر گز خوف و ہراس پھیلانے کی کوششوں کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے۔ جارج کلونی نے اپنے ساتھی اداکار جولیا رابرٹس اور فلم ڈائریکٹر جوڈی فاسٹر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہمارے ملک کو خوف نہیں چلا رہا کیونکہ ہم کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوتے”۔

لیکن میں جارج کلونی سے کہوں گا کہ میرے دوست مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ غلطی پر ہیں۔ کم از کم دوسری عالمی جنگ سے لے کر اب تک اور اس سے کئی عشرے پہلے سے "خوف” امریکی سیاست میں ایک اہم جذباتی محرک کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے۔ جارج کلونی کی رائے کے برعکس، امریکی عوام انتہائی خوفزدہ ہیں۔ امریکی معاشرے کا سب سے بڑا "بھوت” سابق سوویت یونین تھا جو تقریبا 50 برس کے عرصے تک امریکی سیاست اور پالیسیوں پر چھایا رہا۔ آج دوبارہ روس اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو یہ کہہ کر کہ وہ "سابق سوویت یونین کے احیاء کا قصد رکھتے ہیں” بھوت بنا کر امریکی سیاست اور پالیسیوں پر سوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واشنگٹن میں صدر براک اوباما، وزیر خارجہ جان کیری، کانگریس کے اہم رہنما اور پینٹاگون کے لیڈران سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ روس عالمی سیکورٹی کیلئے ایک خطرہ ہے لیکن کوئی اس اتفاق رائے کا تنقیدی جائزہ لینے کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔ مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے نئے کمانڈر جنرل کرٹس ایسکاپاروتی نے خبردار کیا ہے کہ مشرقی یورپ اور بالٹک ریاستوں کے خلاف ان کے بقول روسی جارحیت کے خلاف بننے والے امریکی اتحاد کو روس کے خلاف جنگ کیلئے ہر لمحہ تیار رہنا چاہئے۔

یوں، سابق سوویت یونین کے زوال کے 25 برس بعد ایک بار پھر سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار دوبارہ "خوف” امریکی سیاست اور پالیسیوں کے محرک کے طور پر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمیشہ اس اجتماعی رجحان کی ایک بظاہر حقیقی بنیاد موجود ہوتی ہے۔ آج روس کی جانب سے امریکہ یا اس کے نیٹو اتحادیوں کو کوئی خطرہ درپیش نہیں جیسا کہ ماضی میں سوویت یونین سے ایسا کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا۔ روس کی جانب سے یوکرائن پر حملہ اور اسے اپنے ساتھ ملحق کرنے کی کوشش جیسے مبالغہ آرائی پر مبنی دعوے حقیقت کے تناظر میں بے اہمیت، بے بنیاد اور غیرواقعی ہیں۔ حقائق کا بخوبی جائزہ لینے سے ان دعووں کے کھوکھلا ہونے کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے دعووں کا اصل مقصد نام نہاد مغربی "آزاد” میڈیا میں جھوٹے پروپیگنڈے کی روایت کو برقرار رکھنا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اپنے کٹھ پتلی میڈیا کے ذریعے جھوٹ کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ مغربی قوتیں روس نامی دشمن سے درپیش خطرات کی صورت میں ایک جھوٹی اور توہماتی تصویر کو حقیقت کا رنگ دے کر اپنے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

معروف برطانوی لکھاری جارج اورویل (George Orwell) نے صحیح کہا ہے کہ "خوف” عوام کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک بہترین ہتھکنڈہ ہے۔ وہ کہتا ہے ایسا کام کریں کہ عوام ایک بیرونی دشمن سے اپنی جان کے خوف میں مبتلا ہو جائیں تاکہ آسانی سے آپ کے مطیع ہو جائیں اور آپ کی طاقت قبول کرنے پر تیار ہو جائیں اور یہ نہ سوچیں کہ ان پر لاگو ہونے والی طاقت کس قدر آمرانہ اور غیرقانونی ہے۔ "خوف” عوام کی جانب سے اپنے جمہوری حقوق سے چشم پوشی کرنے اور خود کو قیدخانے میں قید کرنے کی چابی ہے۔ 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے فورا بعد مغربی طاقتوں نے سابق سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کر دیا۔ مغربی طاقتیں اس سرد جنگ کو اپنے ممالک کی ترقی کیلئے ضروری سمجھتی تھیں۔ امریکی مصنف ڈیوڈ ٹیلبوٹ (David Talbot) اپنی کتاب “The Devil’s chessboard” میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وال اس
ٹریٹ، پینٹاگون اور ان کے ہم خیال مغربی سیاست دان سرد جنگ کو بنیاد بنا کر روس کو شیطانی طاقت کے طور پر پیش کر رہے ہیں تاکہ اس طرح اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات حاصل کر سکیں۔ وہ اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی سیاست دان، تجزیہ نگار، لکھاری یا حقائق سے آگاہ شخص سرد جنگ کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو فورا اس پر غداری کا الزام لگا کر اسے میدان سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی اس پالیسی میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں سرد جنگ کی حامی مغربی مافیا کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔

امریکہ کا دفاعی بجٹ تقریبا 600 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس قدر عظیم دفاعی اخراجات معاشرے کی دیگر ضروریات اور مشکلات سے بے توجہی کا باعث بن رہے ہیں۔ امریکی مالی ذخائر کے ضیاع کی اصل وجہ وہ "خوف” ہے جو حکومتی پالیسیوں اور سیاست کے اجراء کیلئے معاشرے میں پھیلایا جاتا ہے۔ "دفاع” یا درپیش خطرات کے مقابلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اہم مفادات کے "تحفظ” کی خاطر امریکی فوج کا محترم اور برتر ہونا ضروری ہے۔ عالمی خطرے کا کردار بدستور روس اور کسی حد تک چین کے سپرد کیا گیا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے گذشتہ 7 عشروں سے امریکی عوام کو ایک مسلسل نفسیاتی منصوبہ بندی کا شکار کیا گیا ہے۔ یہ نفسیاتی یلغار میڈیا سے "اخبار” کی صورت میں کی جاتی ہے۔ یورپی ممالک بھی اس منصوبے میں امریکہ کے شانہ بشانہ سرگرم عمل ہیں۔ مغربی معاشروں میں بسنے والے شہریوں کی برین واشنگ ایک انتہائی گھٹیا اور پست عمل ہے اور روس کے خلاف کئے جانے والے تمام دعوے کھوکھلے ہیں۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ مغربی میڈیا اپنی اس مہم میں بہت حد تک کامیاب نظر آتی ہے۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف پوری طرح حاصل نہیں کر پا رہے۔ مغربی میڈیا واضح جھوٹ اور حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے کے باعث اپنا اعتماد کھو رہا ہے۔ مثال کے طور پر جرج بش سینیئر اور ٹونی بلیئر اتحاد کی جانب سے عراق پر فوجی حملے کا جواز فراہم کرنے کیلئے مغربی میڈیا نے جو جھوٹے دعوے کئے یا لیبیا، شام اور یوکرائن میں حکومت میں تبدیلی کی خاطر جو جھوٹے دعوے کئے گئے۔ آج مغربی ممالک کے شہری متبادل میڈیا تک رسائی حاصل کر چکے ہیں جس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔ مغربی عوام ان ذرائع سے دنیا میں موجود حقائق سے آگاہ ہو رہے ہیں اور اپنے میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کی حقیقت سمجھ چکے ہیں۔ اگرچہ "بڑے جھوٹ” کا ہتھکنڈہ اب بھی موثر ہے لیکن اس کا اثر ماضی کی نسبت بہت کم ہو چکا ہے۔

مغربی شہریوں کی اس آگاہی کا نتیجہ یورپی ممالک میں عوام کی بڑھتی ہوئی ناراضگی اور اعتراضات کی صورت میں قابل مشاہدہ ہے۔ یورپی عوام اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ ان کی حکومتیں امریکہ کی اندھی تقلید میں مصروف ہیں اور وہ واشنگٹن کی پیروی کرتے ہوئے روس کو اپنا دشمن قرار دے رہی ہیں۔ یورپی ممالک کی مشتعل عوام اپنی حکومتوں سے یہ سوال پوچھتی نظر آتی ہے کہ وہ آخر کیوں "اقتصادی محنت” پر مبنی پالیسیوں کو قبول کریں جبکہ امریکہ کی سربراہی میں لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں سے ان ممالک کی برآمدات، روزگار اور تجارت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ مغربی عوام اپنی حکومتوں سے یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ آپ ایک طرف تو اعلان کرتی ہیں کہ ملکی ترقی کیلئے بجٹ موجود نہیں جبکہ دوسری طرف اربوں ڈالر نیٹو اتحاد کی نذر کئے جا رہے ہیں؟ اور نیٹو ان پیسوں کے ذریعے روس کے خلاف اشتعال انگیز اقدامات انجام دے کر تناو میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ "خوف” پر مبنی یہ ہتھکنڈہ زیادہ تر امریکی حکومت کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے جو خود کو دنیا میں آزادی اور جمہوریت کا مرکز قرار دیتی ہے۔ جارج کلونی خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں اور انہوں نے اپنے خیال میں یہ تصور قائم کر رکھا ہے کہ "امریکی عوام کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوتے”۔ یہ محض ایک دعوی ہے۔ میں انتہائی احترام سے ان سے یہ کہنا چاہوں گا کہ امریکی عوام دنیا کی خوفزدہ ترین عوام ہے اور ان کی برین واشنگ کیلئے قائم کیا گیا نظام اس قدر ماہرانہ انداز میں عمل کرتا ہے کہ انہیں حتی اس نظام کی موجودگی کا بھی علم نہیں ہو پاتا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button