مضامین

شیخ عیسٰی قاسم کی شہریت اور فرقہ پرستی کے الزامات

تحریر: سید اسد عباس

سعودی عالم دین اور مذہبی راہنما شیخ نمر باقر النمر کی سزائے موت پر عمل، نائجیریا کے عالم دین اور مذہبی راہنما شیخ زکزاکی کی گرفتاری، ان کے قریبی ساتھیوں اور اہل خانہ کے قتل کے بعد اسلامی دنیا پر اپنی دولت کے بل بوتے پر حکومت کرنے والے حاکموں کی جانب سے تیسرا اقدام بحرین کے عالم دین اور مذہبی راہنما آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کی بحرینی شہریت کے خاتمے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ کسی بھی مذہبی طبقہ کے اعلٰی ترین راہنماؤں کے خلاف کئے گئے درج بالا انتہائی اقدامات ان اقدامات کے علاوہ ہیں، جو وہاں کے عوام سے روا رکھے جا رہے ہیں۔ ان تینوں علماء پر لگنے والے الزامات میں ایک بات جو مشترک ہے، وہ یہ کہ یہ تینوں افراد مذہبی منافرت پھیلانے، فرقہ واریت کو رواج دینے اور حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی سرپرستی کر رہے تھے۔ اپنے مسلک کے لوگوں کے ساتھ حکومت کی جانب سے امتیازی سلوک، ظالمانہ رویہ، ناانصافی، جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھانا اگر مذہبی منافرت ہے تو نہ جانے کیسے کوئی مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔ کیا اس تعریف کے تحت فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانا مذہبی منافرت نہیں، کیا کشمیری، برمی، افغانی، شامی، یمنی، عراقی، مصری مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانا اس تعریف کے ذیل میں نہیں آتا۔

دہشت گردی کے بعد فرقہ واریت کا چورن مارکیٹ میں عام ہے۔ جو آپ کے ظلم و بربریت اور بے انصافی کے خلاف آواز اٹھائے اسے مذہبی منافرت، فرقہ واریت کا ٹائیٹل دے کر معاشرے میں بدنام کرکے دبا دو۔ حالانکہ دیکھا جائے تو درج بالا معاملات میں ان شخصیات اور ان ممالک کے عوام کے خلاف کئے جانے والے اقدامات فرقہ وارانہ ہیں۔ جان بوجھ کر ایک خاص مسلک کے اعلٰی ترین افراد کے خلاف قتل، تشدد اور شہریت کے خاتمے جیسے انتہائی اقدامات لئے جائیں اور پھر توقع رکھی جائے کہ کوئی ریاست کے خلاف بات نہ کرے، کسی کے جذبات کو آنچ نہ آئے۔ تیل کی دولت سے چلنے والی ان ریاستوں نے عالم اسلام میں اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے فرقہ واریت، مذہبی منافرت کا چورن عالم اسلام میں اٹھنے والی ہر تحریک کے بعد بیچنا شروع کیا۔

ایران میں عوام نے شاہی حکومت کا تختہ الٹا تو یہ انقلاب فرقہ وارانہ ہوگیا، اس سے قبل شاہ کی شیعہ حکومت بالکل بھی فرقہ وارانہ نہ تھی، یمن میں حوثیوں نے عوامی تحریک برپا کی تو یمنی فرقہ پرست ہوگئے، حالانکہ اس سے قبل اسی مسلک سے تعلق رکھنے والا یمنی صدر علی عبداللہ صالح فرقہ پرست نہ تھا۔ مصر میں اخوان نے حکومت بنائی تو یہ بھی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھی اور یہ لوگ ارھابی قرار پائے۔ فرقہ واریت کے چورن کی فروخت میں بیوپاری کے ساتھ ساتھ گاہک بھی برابر کا قصوروار ہے، جو ہر ایسی آواز پر کان دھرتا ہے، جو اس کے مسلک سے اٹھے۔ کیا یہ فرقہ پرستی اور فرقہ واریت نہیں ہے۔؟

کیا ممکن نہیں کہ دنیا کی کوئی مسلکی ریاست کسی ایک مسلک کے پیروکاروں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہو۔۔۔ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں، تاکہ اپنے اقتدار کو طول بخشا جا سکے۔ اگر اس قانون کا اطلاق ایران پر کرنا ہو تو یہ عین حق ہے۔ اگر عراق پر کرنا ہو تو کوئی قباحت نہیں، اگر شام میں روا رکھنا ہو تو بالکل جائز، لیکن اگر اسی قانون کا رخ سعودیہ، بحرین اور نائجیریا کی جانب ہو جائے تو پھر یہ قانون غلط، ریاست کے خلاف بغاوت۔ کیا یہ فرقہ واریت نہیں۔؟  فرقہ واریت کی اس عینک کو اتار کر ذرا معاملات کو حق و باطل کی بنیاد پر پرکھنے کی کوشش کریں۔

بحرین ایک ایسا ملک ہے جہاں شیعہ مسلک کے پیروکاروں کی اکثریت ہے اور یہ آج سے نہیں صدیوں سے ہے، اس اکثریتی شیعہ علاقے پر براجمان ایک آمر کی حکومت جو اس مسلک کے پیروکاروں کو فقط شیعہ ہونے کے سبب شہری حقوق سے محروم رکھے، ان کی آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لئے باہر سے دوسرے مسالک کے لوگ لاکر بسائے جائیں، حکومتی اداروں میں مقامی لوگوں کے لئے کوئی مقام نہ ہو، ان کی نسلوں کو اعلٰی تعلیم اور ترقی کے مواقع سے محروم رکھا جائے، اگر وہ اپنے حقوق کا تقاضا کریں تو ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جائیں، ان کو انصاف کے حق سے محروم رکھا جائے، ان کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں سے پہلو تہی کی جائے، منتخب نمائندوں کو پابند سلاسل کیا جائے، ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پر پابندی عائد کرکے اس کے اثاثے منجمد کر دیئے جائیں اور تو اور اس ملک کے اعلٰی ترین مذہبی راہنما کی شہریت کو عالمی قوانین کو پس پشت ڈالتے ہوئے ختم کر دیا جائے تو فرقہ واریت اور کسے کہتے ہیں۔؟

شیخ نمر باقر النمر کی مانند شیخ عیسٰی قاسم کا جرم یہی ہے کہ وہ حکومت کے اس ظلم و ستم کے خلاف خاموش نہ رہے، اپنے حجرہ عبادت سے وعظ و نصیحت کے بجائے وہ میدان میں موجود رہے اور حکومت کے ہر ظالمانہ اقدام کے خلاف انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ حکومت نے انہیں ایک عرصہ نظر بند رکھنے کے بعد یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ان کی شہریت کو ختم کر دیا۔ بحرین میں شہریت کے خاتمے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی ایک درجن کے قریب بحرینیوں کو انہی الزامات کی بنیاد پر ملک بدر کیا گیا۔ اس کے باوجود اگر بحرینی عوام پرامن جدوجہد جاری رکھیں اور ملک کی املاک کو نقصان پہنچائے بغیر اپنا حق مانگیں تو اسے فرقہ واریت کہنا ظلم کی انتہا ہے۔

ریاستیں عموماً اپنے مخالفین پر الزامات دھرتی ہیں کہ وہ بیرونی قوتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں، ان کے ملک
دشمنوں سے روابط ہیں۔ یہی الزامات شیخ نمر باقر النمر اور شیخ زکزاکی پر لگے، آج وہی الزامات شیخ عیسٰی قاسم پر لگائے جا رہے ہیں۔ جن ممالک میں شخصیات اور گروہوں کو بیرونی امداد حاصل ہو، وہاں صورتحال شام، لیبیا، بلوچستان اور افغانستان جیسی ہوتی ہے، یوں نہیں ہوتا کہ عوام روز مرتے بھی رہیں اور حکومت کے خلاف بغاوت بھی نہ کریں۔ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ اسلام اس کا دیس ہے اور وہ بنیادی طور پر مصطفوی ہے، موجودہ ریاستی حد بندیاں استعمار کی مسلمانوں کے خلاف سازش ہیں، تاہم جس وطن اور سرزمین پر انسان پیدا ہو اور اس کے بزرگ اس سرزمین میں مدفون ہوں، اس سے محبت اور انس ہونا فطری ہے، عالمی قوانین میں بھی کسی بھی شخص کی سیاسی، مذہبی یا کسی اور بنیاد پر شہریت معطل کرنا جرم ہے۔ آج بحرین کا سرکردہ عالم اپنی حق گوئی کی وجہ سے اس ظلم کا نشانہ بن چکا ہے، جس کے خلاف بحرین کے مقامی لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ یقیناً بہت سے لوگ اسے شیعہ سنی تناظر میں دیکھتے ہوں گے، لیکن یہ شیعہ سنی مسئلہ نہیں بلکہ ظالم و مظلوم کا مسئلہ ہے۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اشیاء کی حقیقت سے آگاہ فرمائے۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button