امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ، اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ
تحریر: گلین فورڈ (Glen Ford)
امریکہ کا یہ دعوی کہ وہ عالمی سطح پر "دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں مصروف ہے، اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاریخ میں ایسے جھوٹ بولے گئے ہیں جیسے بحر اوقیانوس کے اس پار سے غلاموں کی تجارت کا جواز پیش کرنے کیلئے یہ کہا گیا کہ یہ تجارت درحقیقت دیگر اقوام کو عیسائی مذہب کی طرف ترغیب دلانے کا ایک بہانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر موجود جہادی نیٹ ورک کا بانی اور اصل حامی ہے۔ دنیا کے اکثر لوگ اس حقیقت کو جان چکے ہیں جیسا کہ شام کے 82 فیصد شہری اور حتی داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے 62 فیصد شہری یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا بانی امریکہ ہے۔ صرف وہ امریکی جو خود کو غیر معمولی خیال کرتے ہیں اور سامراجی ذہنیت کے حامل یورپی واشنگٹن کی اس حماقت اور بے وقوفی کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن واضح ہے کہ یہ حقیقت کہ "امریکہ نے شدت پسند تکفیری دہشت گردی کو دنیا پر مسلط کر رکھا ہے” ہر ملک کیلئے شدید حد تک خطرناک ہے۔ جب یہ کھیل اختتام کو پہنچے گا اور دنیا والے بظاہر یہ دکھاوا کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے کہ امریکہ دنیا میں انجام پانے والی تمام دہشت گردی کی اصل جڑ نہیں، تو اس وقت امریکہ کے پاس کیا جواب ہو گا؟ جب امریکہ پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد ہو گا تو اس وقت ایک مجرم سپر پاور سے کیا سلوک روا رکھا جائے گا؟
صدر ولادیمیر پیوٹن نے گذشتہ سال نومبر میں شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف وسیع فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ روس نے داعش کے ٹھکانوں کو شدید ہوائی اور میزائل حملوں کا نشانہ بنایا۔ یاد رہے کہ امریکہ نے بھی ستمبر 2014ء سے شام میں داعش کے خلاف نام نھاد فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن امریکہ کی فوجی کاروائی کے جعلی ہونے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ روس کی جانب سے داعش کے خلاف وسیع پیمانے پر ہوائی حملوں کے آغاز تک داعش کے تمام ٹھکانے اور فوجی اڈے اپنی اصلی حالت میں موجود تھے۔ داعش نے امریکی فوجی آپریشن کے دوران شام میں پاوں جما رکھے تھے اور بڑے آرام سے وسیع پیمانے پر خام تیل کی تجارت میں مصروف تھا۔ یہ سب کچھ امریکی بمبار طیاروں کے سائے تلے ہو رہا تھا۔ ولادیمیر پیوٹن نے کہا: "میں نے اپنے دوستوں کو ایسی تصاویر دکھائیں جو جاسوسی طیاروں سے لی گئی تھیں اور ان میں داعش کی طرف سے وسیع پیمانے پر خام تیل کی غیرقانونی تجارت کا بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ داعش کی جانب سے خام تیل لے جانے والے آئل ٹینکرز کی لائن دسیوں کلومیٹر تک پھیلی ہوئی تھی اور چار یا پانچ ہزار میٹر کی بلندی سے آسانی سے دکھائی دیتے تھے”۔
روسی بمبار طیاروں نے داعش کے آئل ٹینکرز کو نشانہ بنانا شروع کیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر روس نے ہوائی حملوں اور بحیرہ کیسپیئن میں اپنے جنگی بحری جہازوں سے میزائل حملوں کے ذریعے داعش کی خام تیل کی غیرقانونی تجارت کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ روسی صدر پیوٹن کی جانب سے داعش کے خلاف امریکی فوجی کاروائی کی تضحیک نے امریکی صدر براک اوباما کو دنیا والوں کے سامنے شرمندہ کر دیا اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے۔ ایسی تضحیک اور توہین جس کی جرات صرف ایک ہم پلہ جوہری سپر پاور میں ہی ہو سکتی تھی۔ لیکن روسی صدر نے ہر لفظ انتہائی دقت سے انتخاب کیا تھا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ شدت پسند مذہبی گروہ امریکہ کی سامراجی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں۔ واشنگٹن کے پاس اس وقت ان جہادی گروہوں کا کوئی متبادل موجود نہیں جو سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی حکومت کے آخری دنوں میں امریکی پالیسیوں کے اہم آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہے تھے۔ اسی وجہ سے اگست 2014ء میں امریکی صدر براک اوباما نے داعش سے متعلق اعتراف کرتے ہوئے کہا: "ہم ابھی تک ایک مخصوص اسٹریٹجی سے بے بہرہ ہیں”۔ اوباما کے پاس داعش کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی اسٹریٹجی ہے ہی نہیں کیونکہ امریکہ شام میں سرگرم مذہبی شدت پسند گروہوں سے مقابلے کیلئے اسٹریٹجی سے بے بہرہ ہے جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تمام دہشت گرد گروہ درحقیقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے حق میں سرگرم عمل ہیں۔
صدر براک اوباما نے ابھی تک داعش کے خلاف جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ امریکہ نے نہ تو سپرپاور ہونے کے ناطے داعش کے خلاف کوئی فوجی اقدام انجام دیا ہے اور نہ ہی رواں برس مارچ میں روس کی مسلح افواج کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف انجام پانے والے آپریشن کی حد تک کوئی فوجی کاروائی انجام دی ہے۔ چند ہفتے قبل امریکی روزنامے نیویارک ٹائمز نے ایک مقالہ شائع کیا جس میں کچھ حد تک داعش کے خلاف امریکی ہوائی حملوں کی توجیہہ کی گئی اور کچھ حد تک انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ امریکی حکام داعش کے خلاف اپنے ہوائی حملوں کے غیرمفید ہونے کی وجوہات یہ بتاتے ہیں: معلومات کی کمی، ٹارگٹس کے تعین میں عدم پختگی، کم تجربہ کار پلانرز، افراد کی کمی اور سویلین افراد کے مارے جانے کا خدشہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مسلح افواج دوسری عالمی جنگ سے لے کر آج تک 2 سے 3 کروڑ افراد قتل کر چکی ہیں۔ لیکن پینٹاگون یہ دعوی کرتی نظر آتی ہے کہ اس نے اپنا طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے اور اب اس کی توجہ کا مرکز داعش کے مالی ذرائع کا خاتمہ اور داعش کے مالی ذخائر کو تباہ کرنا ہے اور اس نے اب تک داعش کو اتنا مالی نقصان پہنچایا ہے کہ وہ اپنے 50 فیصد جنگجووں کو تنخواہ دینے
سے قاصر ہے۔ امریکی فوج کہتی ہے کہ اس نے داعش کے 400 آئل ٹینکرز تباہ کئے ہیں۔ جبکہ روس کا دعوی ہے کہ اس نے اب تک داعش کے 2000 آئل ٹینکرز تباہ کئے ہیں۔ دوسری طرف نیویارک ٹائمز امریکی ایئرفورس کے ریٹائرڈ تھری سٹار جنرل ڈیوڈ ای ڈیپولتا کی رائے بھی شائع کی ہے۔ جنرل ڈیپولتا نے 1991ء میں عراق پر فضائی حملوں اور 2001ء میں افغانستان پر ہوائی حملوں کی منصوبہ بندی کی اور کمان سنبھالی تھی۔ وہ شام میں داعش کے خلاف امریکہ کی فوجی کاروائی اور ہوائی حملوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حملے علامتی حد تک ہیں اور گذشتہ امریکی ہوائی حملوں کی نسبت انتہائی کمزور ہیں۔
امریکہ نے شام اور عراق میں سرگرم تکفیری دہشت گردوں کے خلاف اوسطا ہر روز 14 ہوائی حملے انجام دیئے ہیں جن کا عروج اپریل کے مہینے میں تھا جب امریکہ نے 17 ہوائی حملے انجام دیئے تھے۔ جبکہ 2001ء میں نیٹو نے لیبیا میں اوسطا ہر روز 50 ہوائی حملے انجام دیئے، افغانستان میں اوسطا ہر روز 85 ہوائی حملے اور 2003ء میں عراق کے خلاف جنگ کے دوران اوسطا ہر روز 800 ہوائی حملے انجام دیئے تھے۔ دوسری طرف روس نے شام میں داعش کے خلاف فوجی کاروائی کے دوران اوسطا ہر روز 55 ہوائی حملے انجام دیئے ہیں اور تقریبا 5 ماہ تک جاری رہنے والی اپنی کاروائی کے دوران داعش کے ٹھکانوں پر 9 ہزار ہوائی حملے انجام دیئے جبکہ شام میں تعینات روس کی ایئرفورس کی تعداد خطے میں موجود امریکی ایئرفورس سے کہیں کم ہے۔ اس وقت خطے میں امریکہ کے 750 جنگی طیارے تعینات ہیں اور امریکی جنگی کشتیوں میں موجود کروز میزائلوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے ایک حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ امریکہ داعش کے خلاف حقیقی جنگ سے گریز کر رہا ہے اور شام میں موثر فوجی کاروائی انجام دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ البتہ امریکہ کے بہانے جیسے معلومات کی کمی، امریکی مسلح افواج کی اندرونی کشمکش اور اختلافات، افراد کی کمی اور ناقص نشانہ گیری وغیرہ میں بھی کسی حد تک صداقت پائی جاتی ہے کیونکہ ایسے شدت پسند گروپس جنہیں امریکہ اپنا دشمن نہیں سمجھتا ظاہر ہے ان کے بارے میں معلومات کی کمی یا ناقص نشانہ گیری جیسے احتمالات پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی مسلح افواج کے اندرونی اختلافات اور کشمکش بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کیونکہ پینٹاگون اور سی آئی اے الگ الگ شدت پسند گروہوں کی حمایت میں مصروف ہیں لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ شام میں سی آئی اے کے حمایت یافتہ دہشت گرد اور پینٹاگون کے حمایت یافتہ دہشت گردوں میں مسلح جھڑپیں واقع ہو رہی ہیں۔
امریکہ داعش کے رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ اور ان کے مالی ذخائر کی نابودی پر مبنی دعووں کے ذریعے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام اوباما حکومت کی جانب سے شدت پسند مذہبی گروہوں کی حمایت پر مبنی پالیسی سے مکمل ہم آہنگ ہے لیکن اب یہ پالیسی شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ کی پالیسی یہ تھی کہ وہ داعش کے سرگرم تکفیری دہشت گردوں کو بچا لے اور انہیں ایک نئے نام اور عنوان کے تحت اپنے مفادات کیلئے استعمال کرے۔ امریکی حکام کا عقیدہ ہے کہ داعش اس وقت ایک "باغی گروہ” میں تبدیل ہو گیا جب دو سال قبل اس نے امریکی پالیسیوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور خود اپنا راستہ مقرر کرنا شروع کر دیا۔ ایسی صورتحال میں بھی امریکہ کی پالیسی صرف داعش کے مرکزی رہنماوں کو ختم کرنا تھا جبکہ وہ داعش کے 30 ہزار جنگجووں کو اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے بچانے کے درپے تھا۔ امریکہ نے ان افراد کو خام تیل کی تجارت کیلئے استعمال کیا جو شام سے خام تیل اسمگل کر کے نیٹو کے اتحادی ملک ترکی کو ارسال کرتے تھے۔ اگرچہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں شام میں سرگرم تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی پر زور دیا گیا لیکن عمل کے میدان میں امریکہ نے شام میں سرگرم القاعدہ اور النصرہ فرنٹ کو روس کے ہوائی حملوں سے بچانے کی بھرپور سفارتی کوششیں انجام دیں۔
ریٹائرڈ امریکی جنرل ڈیپولتا کی نظر میں داعش کے خلاف امریکی حملے "علامتی” اور "کمزور” ہیں۔ امریکہ کے یہ ہوائی حملے درحقیقت اس بے بسی کا نتیجہ ہیں جس کا امریکہ داعش کے ذریعے شام میں فوجی توازن قائم کرنے میں شکار ہوا ہے۔ اسی طرح یہ ہوائی حملے امریکہ کی جانب سے اپنے "بڑے جھوٹ” کو برقرار رکھنے میں ناکامی کا بھی نتیجہ ہیں۔ یہ جھوٹ اس دعوے پر مبنی ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ عالمی سطح پر تو یہ جھوٹ فاش ہو چکا ہے لیکن ملکی سطح پر امریکہ میں اس جھوٹ کے کچھ اثرات باقی ہیں جن کا سہرا جھوٹے پروپیگنڈے کے ماہر مغربی اور امریکی میڈیا کے سر سجتا ہے۔