فزت ورب الکعبہ کی ندا!
تحریر: ارشاد حسین ناصر
امجد صابری کو گولیوں سے بھون دیا گیا تو ہمیں علم ہوا کہ وہ کس قدر قیمتی انسان تھا، اس کا جنازہ دیکھ کے کہا جا سکتا ہے کہ کراچی والوں نے کراچی کے قاتلوں کے لگائے گئے داغ کو دھو دیا، کتنی بڑی تعداد میں اسے خراج عقیدت پیش کرنے اہل کراچی نکلے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر مقبول اور دلوں میں گھر کئے ہوئے تھا اور لوگوں کو اس کے یوں مارے جانے کا کس قدر دکھ اور رنج ہوا ہے، شائد ہی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے رہنماؤں کے جنازے اتنے بڑے ہوئے ہوں۔ امجد صابری کے مرنے پہ ہمیں یاد آیا کہ ابھی چند دن پہلے ہی ہم نے اسی شہر آتش و خون میں ایک مرد جری خرم ذکی کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد لحد کیا تھا، خرم ذکی کس قدر قیمتی انسان تھا، اس کا اندازہ بھی اس موت کے بعد ہی لگا، ورنہ سب ہی جانتے ہیں کہ سو نہیں ہزار اعتراض ہوتے تھے اس کیساتھ بھی۔ بہرحال اس کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے، معلوم نہیں لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنے والے خرم ذکی کے بچوں کی حالت کیسی ہے اور کون ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
خرم ذکی کے جنازے پہ کھڑے ہو کر ہمیں یاد آیا تھا کہ ہم نے اسی شہر میں مولانا دیدار جلبانی کو خون میں لت پت دیکھا تھا اور ان کی میت کو اندرون سندھ بھیجا تھا، ہم نے اسی شہر میں ایک بے ضرر انسان آفتاب حیدر کو تڑپتے دیکھا تھا اور لحد میں اترتے ایسے ہی روئے تھے جیسے کل امجد صابری کو اتارتے رو رہے تھے، ہم نے اسی شہر میں برادر سعید حیدر زیدی کو رزق خاک ہوتے دیکھا تھا، وہ بھی سفید کفن پر لہو کی سرخ عبا زیب تن کیئے ہمیں روتا چھوڑ گئے تھے، ان کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور ان کی سسکیاں ہمیں ان کے جنازے کے وقت تڑپا رہی تھیں، کیا ہمیں معلوم ہے ان کے بچے کس حال میں ہیں؟ ہم نے اسی شہر میں مولانا حسن ترابی کو امن و اتحاد کی دعوت دیتے اور لہو میں نہاتے دیکھا ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس شہر نارساں میں مسجد حیدری کے در و دیوار اور صفیں اس کے نمازیوں کے خون سے رنگین کی گئیں، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ عباس ٹاون نامی آبادی کو بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا، ہم نے دیکھا کہ مسجد و امام بارگاہ علی رضا کا گنبد نمازیوں کے جسم کے ٹکڑوں سے اٹکا دیکھا ہے۔
کیا استاد سبط جعفر کا نام معمولی تھا، جنھیں اسی لیاقت آباد کے ایریا میں دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا، کیا استاد سبط جعفر کو یہی امجد صابری استاد نہیں کہتا تھا، کیا ان کی کمی آج تک پوری ہوسکی، کیا ان کے پیروان بھی اسی طرح ہزاروں کی تعداد میں جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے، کیا انہوں نے علم کی خیرات بانٹتے ہوئے، محبت کا چراغ روشن کرتے ہوئے کبھی کنجوسی کی تھی، کبھی کسی تعصب کا مطاہرہ کیا تھا، علم کی خیرات بانٹتے ہوئے تعصب نہیں کیا جاتا، محبتوں کے پھولوں کو اگاتے ہوئے خوشبو کو قید نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔ ۔۔ پھر یہ کون ہے جو محبت کے بدلے نفرت کاشت کرتا ہے، جو پروان چڑھ کے خوشبو کا سفر روک دیتی ہے۔۔۔ یہ کون ہے جو تعلیم اور علم کی پھیلتی روشنی اور نور کو اندھیرے اور تاریکی میں بدلنے پہ کمر بستہ ہے۔۔۔۔ یہ کون ہے جو شعور کو کا راستہ روک رہا ہے، بیداری کو بیزاری سمجھتا ہے۔۔۔ ۔
ہم سانحات کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اب ہماری لغت کے وہ سارے الفاظ قدر کھو گئے ہیں، جو ایسے مواقع پر ہر ایک استعمال کرتا ہے، ہمیں اب مذمت، افسوس، دکھ، غم، شریک غم، بہت ہی زبردست آدمی تھا، بہت ہی میٹھا تھا، بہت ہی درد دل والا تھا، بہت ہی بھلا مانس تھا، یہ سب تصنع اور بناوٹ سے لگتے ہیں۔ جہاں روز کسی ماں جائے کا لہو گرتا ہو، جہاں روز بچے یتیم ہوتے ہوں، جہاں روز دلہنوں کے سہاگ اجڑتے ہوں، ماؤں کی گودیں خالی ہوتی ہوں، بیٹیوں کی آس اور امید دم توڑتی ہو، جہاں روز بڑھاپے کے سہارے چھینے جاتے ہوں، جہاں انسان کی قدر ایک معمولی موبائل سے بھی کم ہو، جہاں کرائے پر بندوقیں، موٹر سائیکل اور قاتل دستیاب ہوں، وہاں الفاظ قدر کھو جائیں تو حیرانی کیسی، پریشانی کیسی؟
جہاں ہر سو خوف ہو، وحشت ہو، دکھ ہوں، درد ہوں اور بے اعتمادی ہو، وہاں سے لوگ بھاگ رہے ہوں، دوسرے ملک اور صوبوں میں جا رہے ہوں تو حیران کیوں ہوں، یہ نام نہاد کراچی آپریشن، یہ نام نہاد نیشنل ایکشن پلان، یہ نام نہاد ضرب عضب پتہ نہیں کہاں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہے؟ معلوم نہیں کہاں ان ملک دشمنوں اور انسانیت کے لبادے میں سفاکیت کے پروردو8 کی کمر توڑی جا رہی ہے، جس سے بھاگ کر وہ اب آسان اہداف کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں، کبھی کبھی تو بہت سے کرداروں اور الف لیلوی داستانوں کے خالقوں کی کہانیوں سے گھن آنے لگتی ہے، آخر ایسا کیوں کرتے ہیں، لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے، انہیں اندھیرے میں رکھنے کیلئے، انہیں حقائق سے کوسوں دور دھکیلنے کیلئے سکرپٹ تیار کئے جاتے ہیں۔
یہ بات اب کھل کے کہی جا رہی ہے کہ ہمارے سکیورٹی اداروں نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعہ کے بعد جو عوامی ہمدردی پائی تھی، اب اپنی سوال اٹھاتی کارکردگی کے باعث اس کا گراف بہت نیچے جا چکا ہے، جو لوگ بہت ہی مخلصانہ طور پہ سکیورٹی اداروں کے ساتھ کاندھا ملا کے چلے تھے اور عوامی پشتیبانی کر رہے تھے، انہیں اب افسوس ہی ملا ہے، یہ بات اب کھل گئی ہے کہ اس واقعہ کے بعد جو نیسنل ایکشن پلان منظور کیا گیا تھا، اس کا دائرہ ان کی اپنی ترجیح تک محدود ہوچکا ہے اور اس کا شکار ایسی قوتیں ہو رہی ہیں، جنہیں س
کیورٹی فورسز کا پشتیبان کہا جا سکتا ہے، جبکہ اس کے مدمقابل وہ لوگ جو اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت شکنجے میں لائے جانے تھے، انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا، جو اس ملک کی سلامتی کے ساتھ بہت بڑا ظلم کرنے کے مترادف ہے اور اس سے بھی زیادہ دکھ اس بات پہ ہے کہ یہ سب وہ لوگ کر رہے ہیں، جن کی ذمہ داری ایسی سازشوں اور کارروائیوں کو روکنا اور سدباب کرنا ہے۔
اگر بہت کھل کے لکھیں تو پنجاب میں وہ عناصر جنہیں سہولت کار اور مددگار کا درجہ حاصل ہے، انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا، بلکہ اتنا چیخنے چلانے کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پھانسیوں کا جو سلسلہ آگے بڑھنا چاہیئے تھا اور ہمارے اجتماعی قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسیوں پر لٹکانا چاہیئے تھا، اب تک کراچی، پنجاب، کوئٹہ اور جی بی سمیت ہر ایریا میں کئی کئی لوگوں کو شہید کرنے والوں کو جیلوں میں مہمان کے طور پہ رکھا گیا ہے، بلکہ کئی ایک کو تو فرار بھی کروایا گیا ہے، کوئٹہ اور بلوچستان کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ بیان سے باہر ہے، یہاں تکفیریوں، کالعدم گروہوں کا کھلا گٹھ جوڑ ہے، انہیں صوبے بھر میں گھومنے کی آذادی ہے، جبکہ اس صوبے میں ہم نے سو سو لاشیں اٹھائی ہیں، ان کا کوئی قاتل ہمارے سکیورٹی اداروں کو ابھی تک نہیں ملا، جبکہ یہاں کے اہل تشیع و ہزارہ کی مشکلات میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔
پاکستان بھر سے یہاں لوگ ایران عراق بائی روڈ زیارت کیلئے پہنچتے ہیں، پہلے تو شخصی طور بھی اور قافلوں کی شکل میں بھی لوگ یہاں سے تفتان بارڈر کے ذریعے ایران کی طرف سفر کرتے تھے، اب یہ ممکن نہیں رہا، اب یہاں سکیورٹی اداروں نے انتظامیہ کے ساتھ مل کے کاروانوں کو روک دیا ہے اور مہینہ میں صرف دو بار کانوائے تشکیل دے کر انہیں دونوں طرف سے چلایا جاتا ہے، اس کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ زائرین جو پاکستانی ہوتے ہیں، جو اس ملک کے وفادار اور محبان ہوتے ہیں، جن کی اس وطن کی سلامتی وا ستحکام کیلئے بے پناہ قربانیاں ہیں، کو بے حد ذلیل اور مشکلات کا شکار کیا جاتا ہے، انہیں انتہائی سخت خطرات اور گرم و سرد موسم میں کئی کئی دن روکا جاتا ہے، ان سے رشوت طلب کی جاتی ہے، یہ عجیب ہے کہ یہاں دہشت گردوں، کالعدم گروہوں کو کوئی روک ٹوک نہیں، زائرین کیلئے سکیورٹی مسائل ہیں، ان کی توہین کی جا رہی ہے اور انہیں ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے ملک دشمن ہوں، حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی اور مضمون میں اس حوالے سے بات کریں گے کہ یہ روٹ اور اس متعلق دیگر مسائل دراصل کمائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے، جس میں سب برابر کے حصہ دار ہیں (فی الحال ہمارا یہ موضوع نہیں)۔
یہ سب کچھ کہنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے اعلان پر جس خوش فہمی کا شکار ہوئے تھے، وہ اب افسوس اور دکھ میں ڈھل گئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم سازشوں کا شکار تھے، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہینگے، اس لئے ہم قتل ہوتے رہینگے، ہم دبائے جاتے رہینگے، ہم الزامات کا شکار رہینگے، ہمیں ملک سے وفا کی سزا دی جاتی رہیگی، ہمیں اس پر کچھ پریشانی بھی نہیں کہ ہم نے کربلا کا راستہ منتخب کیا ہوا ہے، ہم نے ظالموں کا راستہ نہیں چنا، ہم نے مظلوموں کا رستہ چنا ہے، ہم نے شہادت کا راستہ چنا ہے، ہم نے حق کا راستہ چنا ہے، ہم نے امن کا راستہ چنا ہے، ہم نے دلیل، علم اور شعور کا راستہ چنا ہے، ہم نے وفا کا راستہ چنا ہے، ہمیں جفا کا شکار کیا جائیگا، ہمیں ظلم کا نشانہ بنایا جائے گا، ہمیں ہماری شناخت سے خون میں نہلایا جائیگا۔۔ مگر یہ یاد رہے کہ ہم ہی فاتح ہونگے، ہم ہی میدان ماریں گے، ہم ہی سرخرو ہونگے، ہم ہی کامیاب ہونگے، ہم ہی فزت ورب الکعبہ کی ندا بلند کریں گے، ہم ہی ہیہات من الذلۃ کا شعار بلند کریں گے، ہم ہی موت کو شہد سے زیادہ شیریں کہیں گے۔