بحرین، عوامی جدوجہد کا تسلسل
تحریر: جعفر بلوری
بحرین ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی 13 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ بحرینی عوام کی اکثریت فارسی زبان بولتی ہے اور 70 فیصد آبادی شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ اس چھوٹی سی عرب ریاست میں بھی دیگر رجعت پسند عرب سلطنتوں کی طرح الیکشن اور جمہوریت کوئی معنا و مفہوم نہیں رکھتے اور طاقت کی منتقلی خالصتاً موروثی بنیادوں پر انجام پاتی ہے۔ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں اسلامی بیداری کے شعلہ ور ہونے کے بعد بحرین میں بھی فروری 2011ء سے عوام نے بنیادی ترین حقوق کے حصول کیلئے پرامن جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ بحرین میں شروع ہونے والی عوامی جدوجہد مصر، تیونس اور لیبیا کے برعکس مکمل طور پر پرامن تھی۔ بحرینی رہنماوں نے اپنی جدوجہد کو پرامن رکھنے پر اس حد تک تاکید کی کہ حتی بعض انقلابی حلقوں نے شیعہ رہنما شیخ عیسٰی قاسم کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لیکن شدید تنقید کے باوجود شیعہ رہنما آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم نے اپنی جدوجہد کو پرامن رکھنے پر زور دیا۔ لہذا وہ ہمیشہ سیاسی مشکلات کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر تاکید کرتے رہے۔
لیکن بحرین کی آمر آل خلیفہ رژیم شروع سے ہی عوام کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کرتی آئی ہے اور برطانیہ، امریکہ اور جنوبی کوریا سے برآمد شدہ اسلحہ اور فوجی سازوسامان کے ذریعے عوامی مظاہروں کو کچلتی آئی ہے۔ البتہ آل خلیفہ رژیم کی جانب سے بحرین کی انقلابی تحریک کے خلاف سب سے اہم ہتھیار "شہریت سے محرومی” ہے۔ بحرینی حکومت اب تک کئی شیعہ رہنماوں کی شہریت منسوخ کرچکی ہے جبکہ دیگر ممالک سے سنی افراد کو بحرین کی شہریت عطا کرکے انہیں بسایا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد بحرین میں مذہب کے اعتبار سے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ بحرینی حکومت نے اس سلسلے میں دیگر ممالک سے لاکھوں افراد کو بحرینی شہریت عطا کی ہے۔ آل خلیفہ رژیم کا خیال ہے کہ صومالیہ، سوڈان اور دیگر ممالک سے کئی لاکھ سنی افراد کو بحرینی شہریت عطا کرکے ایک دو سالوں کے اندر اندر ملک میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بعض محققین سمجھتے ہیں کہ بحرینی عوام کی جانب سے اپنی جدوجہد کو پرامن رکھنے پر تاکید کے باعث حکومت جری ہوگئی ہے اور شیعہ شہریوں کی شہریت منسوخ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
لیکن بحرینی عوام کی جانب سے اپنی جدوجہد پرامن انداز میں جاری رکھنے پر تاکید کا واحد نتیجہ صرف بحرینی حکومت کی جانب سے مظلوم بحرینی عوام کی شہریت کی منسوخی کی صورت میں ہی نہیں نکلا بلکہ کچھ عرصہ قبل آل خلیفہ رژیم نے انقلابی عوام کی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے باجماعت نماز، نماز جمعہ، عزاداری امام حسین علیہ السلام اور ماتمی انجمنوں پر پابندی لگا دی۔ بحرینی حکومت کی گستاخی اس حد تک بڑھ گئی کہ شیعہ مراجع تقلید پر بھی پابندیاں لگانی شروع کر دیں اور انہیں حاصل ہونے والی شرعی رقوم کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی۔ حکومت نے بحرین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت "الوفاق پارٹی” پر پابندی عائد کر دی اور تمام شیعہ سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ لیکن حکومت کے یہ تمام اقدامات نہ صرف ملک میں جاری انقلابی تحریک کو روکنے میں ناکام رہے بلکہ اس عوامی جدوجہد کو پرامن حالت سے بھی خارج نہ کرسکے۔ اب بحرینی حکومت نے تنگ آ کر آخری اقدام کے طور پر 9 لاکھ شیعہ مسلمانوں کے لیڈر اور رہنما آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کی شہریت منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد انہیں ملک بدر کرنا ہے۔
بحرینی حکومت کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کے خلاف اپنائے جانے والے اس احمقانہ رویے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بعض محققین سمجھتے ہیں کہ آل خلیفہ رژیم نے اس اقدام کے ذریعے بحرین میں جاری عوامی جدوجہد کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور گذشتہ پانچ برس سے جاری عوامی احتجاج اور مظاہروں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ بعض دیگر محققین کا خیال ہے کہ بحرینی حکومت کے اس اقدام میں سعودی حکمران بھی ملوث ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بحرین میں آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کی شخصیت بہت حد تک سعودی عرب میں آیت اللہ باقر النمر کی شخصیت سے ملتی جلتی ہے۔ دوسری طرف سب جانتے ہیں کہ سعودی حکمران امریکہ کی اجازت کے بغیر پانی بھی نہیں پیتے، لہذا اس اقدام کو سعودی نائب ولیعہد محمد بن سلمان کے دورہ امریکہ سے جوڑا جا رہا ہے۔ یاد رہے حال ہی میں شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کا دورہ کیا ہے، جس کا مقصد نائب ولیعہد کی جانب سے اپنی بادشاہت کا راستہ ہموار کرنا بتایا جا رہا ہے۔ اس اقدام میں امریکہ کے ملوث ہونے کے احتمال کو اس لحاظ سے بھی تقویت ملتی ہے کہ امریکہ نے بحرینی حکومت کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آل خلیفہ رژیم کی جانب سے یہ اقدام ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت انجام پایا ہے اور اسے ایک سادہ یا بغیر سوچے سمجھے اقدام قرار دینا درست نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ، آل خلیفہ اور آل سعود رژیم کی جانب سے یہ انتہائی اقدام انجام دینے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے بحرین کے مسئلے پر ایک جامع نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کی شہریت کی منسوخی پر مبنی بحرینی حکومت کے اقدام کی حقیقی وجوہات جاننے
کیلئے خطے کی سیاسی صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ماضی قریب میں سعودی عرب اور نائیجیریا میں بھی شیعہ مسلمانوں اور رہنماوں کے خلاف انتہائی حکومتی اقدامات انجام پاچکے ہیں، لہذا بحرینی حکومت کا یہ اقدام بھی ان سے غیر مربوط نہیں ہوسکتا۔ سعودی عرب اور نائیجیریا میں بھی اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے انقلابی گروہ پرامن احتجاج پر زور دیتے رہے ہیں اور حکومت نے ان کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال کیا ہے۔ اس اعتبار سے بحرینی حکومت کے اقدامات بہت حد تک سعودی عرب اور نائیجیریا کی حکومت سے ملتے جلتے ہیں۔
دوسری طرف یہ اقدامات خطے اور دنیا میں اسلامی مزاحمت کے مرکز کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاسی صورتحال سے بھی بہت زیادہ مربوط ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ایسے اقدامات کے ذریعے ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے ممکنہ ردعمل کو پرکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ وہ خطے میں ایران کی انقلابی پالیسیوں کا مقابلہ کرے یا ایران کو ان پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ نے ایران پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی شدید اقتصادی اور سیاسی دباو ڈال رکھا ہے۔ امریکہ ایران سے چاہتا ہے کہ وہ خطے میں سرگرم اسلامی مزاحمت کی تنظیموں جیسے حزب اللہ لبنان، حماس، اسلامک جہاد وغیرہ کی حمایت ختم کر دے، لیکن ایران نے امریکہ کے اس ناجائز مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے خطے سے متعلق اپنی انقلابی اور اسلامی پالیسیاں بھرپور انداز میں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ لہذا نائیجیریا میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام اور شیعہ رہنما شیخ زکزکی پر شدید ظلم، سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف حکومتی ظلم و ستم اور آیت اللہ باقر النمر جیسے عظیم شیعہ عالم دین کی حکومت کے ہاتھوں مظلومانہ انداز میں شہادت اور بحرین میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف آل خلیفہ رژیم کے ظالمانہ اقدامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد خطے میں امریکی اور اسرائیلی عزائم کے خلاف برسرپیکار اسلامی مزاحمتی بلاک کو ختم یا کمزور کرنا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، بحرینی عوام اور اسلامی ممالک کے ممتاز علماء دین کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کے خلاف بحرینی حکومت کے ظالمانہ اقدام کے خلاف مناسب ردعمل نے ثابت کر دیا ہے کہ امت مسلمہ بیدار ہے اور خطے میں سرگرم اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عراق کے مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی سیستانی، ایران کے مراجع عالی قدر تقلید، لبنان کے علماء اور پاکستانی علماء نے بحرینی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے خبردار کیا ہے کہ آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کے خلاف کسی قسم کا توہین آمیز اقدام حکومت کیلئے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوگا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی القدس بریگیڈ کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی نے آل خلیفہ رژیم کی جانب سے آیت اللہ شیخ عیسٰی قاسم کی شہریت منسوخ کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے بحرینی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ایسے اقدامات کا نتیجہ بحرین میں جاری پرامن عوامی جدوجہد کا مسلحانہ جدوجہد میں تبدیل ہو جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے، جس کے نتیجے میں آل خلیفہ رژیم نابود ہو جائے گی۔