مضامین

شیعہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ پر بھوک ہڑتالی کیمپ

تحریر: وقار گیلانی

اسلام آبا دپریس کلب کے باہرپاکستان کی شیعہ تنظیم مجلس وحدت ا لمسلمین کی جانب سے لگایا گیا بھوک ہڑتالی اور احتجاجی کیمپ ساتویں ہفتے میں داخل ہو چکا ۔اس احتجاجی سرگرمی کا آغاز 13مئی کو کیا گیا تھا تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف آواز بلند کی جائے اور حکام بالااور عسکری قیادت کو آئے روز شیعہ افراد کی منظم ہلاکتوں کے خلا ف عملی اقدامات لینے پر مجبور کیا جائے ۔ کیمپ کی خاص بات مجلس وحدت المسلمین کے سیکرٹری جنرل راجہ ناصر عباس کا اعلان ہے انہوں نے شیعہ ہلاکتوں پر جب تک کہ ریاست کو کسی واضح عملی قدم نہیں اٹھاتی مسلسل بھوک ھڑتال کا اعلان کیا ہے راجہ ناصر عباس سیکرٹری جنرل مجلس وحدت المسلمین کے مطابق انہوں نے بھوک ھڑتال کا فیصلہ مئی میں پارہ چنار میں فوجی ملیشیا کے ہاتھوں مارے جانے والے تین شیعہ افراد کی ہلاکت اور 11افراد کے زخمی ہونے کے بعد کیا ۔ یہ شیعہ افراد پارہ چنار میں 3شعبان کو امام حسین ؓکی ولادت کے حوالہ سے پروگرام میں باہر سے آنے والے علماءکے داخلے کے روک جانے پر احتجاج کر رہے تھے جن کو مبینہ طور پر پیرا ملٹری فورسز کے جوانوں نے بے دریغ گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ راجہ ناصر عباس کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان شیعہ افراد کی جدوجہد سے آزاد ہوا لیکن وہ اب بھی اپنے آئینی حقوق سے محروم ہیں۔ اکنامک کاریڈور میں انہیں فائدہ دینے کی بجائے الٹا ان کی زمینوں پر قبضے کیے جارہے ہیں ۔ اور وہاں پر وہ لوگ آباد کئے جا رہے ہیں جودہشت گردوں کا مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں ۔ بلوچستان ، کراچی ، پشاور اور ڈیڑہ اسماعیل خان میں مسلسل شیعہ افراد مارے جارہے ہیں لیکن حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

راجہ ناصر عباس کہتے ہیں کہ پنجاب میں عزاداروں پر مقدمات بنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا کسی مجلس سے طالبان کی حمایت ہوتی ہے ؟ انہوں نے کہا ملک اسحاق جیسے دہشت گرد جس نے سو سے زیادہ قتل کیے اور پھر خبروں کے مطابق داعش سے رابطے بڑھائے اسے مار کر نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہو گیا ہے ۔ کیا اس کے بعد بیلسنگ کے لئے شیعہ افراد پر بے گنا ہ مقدمات بنائے جانے چاہئیں ؟ مجلس وحدت المسلمین کے مطابق پاکستان میں شیعہ آبادی 4سے 5کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ پینٹا گون کی ویب سائٹ پر یہ تعداد تقریباً45ملین (ساڑھے چار کروڑ ) ہے ۔ 2014کے اعداد شمار کے مطابق ملک میں جاری شیعہ نسل کشی میں 300سے زیادہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی تھی ۔

طارق پرویز، سابق ڈائر یکٹر جنرل نیشنل کاونٹرٹیئرر زم اتھارٹی (NACTA)کہتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ چونکہ انفرادی طور پر مارے جانے کا عمل ہے اورریاست یا حکومت ان علیحدہ علیحدہ واقعات کا بڑا اثر نہیں لیتی ۔ وہ کہتے ہیں کہ دہشت گرد جب کوئی بڑاحملہ نہیں کر پاتے تو اس طرح کے واقعات کے حکمت عملی بدل لیتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ شیعہ افراد اور پولیس کے جوانوں کی ہو رہی ہے ۔ طارق پرویز مزید کہتے ہیں کہ ریاست نے فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت اور اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا جس کے وجہ سے اس طرح کے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بظاہر داعش پاکستان میں منظم طورپر کام نہیں کر رہی لیکن اس طرح کے گروہ جو داعش کے نظریات کی طرح شیعہ افراد کو مار رہے ہیں کل کو ریاست کے لئے بڑا خطرہ بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ داعش جیسے گروپوں کو مضبوط کرنے کا آلہ کا ربن سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت تو کسی ایک بے گناہ انسان کا مارا جانا ایک ریاست کی شکست ہے ۔

کیمپ میں شیعہ نوجوان کی مناسب تعداد وقتاًفوقتاً کچھ گھنٹوں تک بیٹھ کر اپنے رہنمااور مقصد کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتی بھی نظر آتی ہے۔
کیمپ میں موجود پارہ چنار کے ایک جوان مجاہد علی کے مطابق پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کی کرم ایجنسی میں واقعہ اس علاقہ میں شیعہ آبادی کی واضح اکثریت ہے ۔ تقریباً چھ لاکھ کی آبادی میں 4سے 5لاکھ کی تعداد شیعہ ہیں۔ مجاہد کا کہنا ہے کہ علاقے کی سرکاری اور کئی زمینوں پر شیعہ مخالف فرقے کے لوگوں کو منظم طریقہ سے آباد کیا جا رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ 2008میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود جوبعد میں ایک ڈرون حملہ میں مارا گیا تھا نے بہت ساری شیعہ اور سرکاری زمینیں مخالف فرقہ کو الاٹ کر دیں ۔ جن کا معاملہ بعد میں عدالتوں تک بھی گیا لیکن ابھی تک زمینوں کی واپسی کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔اس طرح ڈیڑہ اسماعیل خان سے آئے ایک نوجوان غضنفر علی کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ڈیرہ اسماعیل خان میں دو وکیل اور دو اساتذہ مار دیئے گئے ہیں ۔ لیکن تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہیں ۔اسی طرح پشاور میں گزشتہ چند سالوں میں 70کے قریب شیعہ افراد مار دیے گئے ہین اور ان کی تحقیقات اور مقدمات میں سرکاری پیروی نہ ہونے کے برابر ہے ۔

طارق پرویز نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ پاکستان میں اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ کرنے والی انتہا پسند تنظیم کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے اس طرح کی تنظیمیں اپنے علاقوں میں سیاسی طور پر بڑی جماعتوں سے جڑی ہوتی ہیں لہذا ان کی وجہ سے ان کے خلاف عمل سیاسی مصلحتوں کا شکار رہتا ہے ۔ شیعہ رہنما راجہ ناصر عباس کہتے ہیں کہ اس ملک میں سب سے پہلے تکفیری ٹولے نے شیعہ افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کیا پھر آستہ آہستہ سنی بریلوی
حضرات کو نشانہ بنایا گیا ۔ دربار وں اور مزارات پر حملے کئے گئے ۔ اور اس ملک میں آہستہ آہستہ غیر اعلانیہ طورپر ایک مخصوص انتہا پسند فرقہ کے بالا دستی کے لئے کام کیا گیا اور ملک میں عدم تحفظ اور خوف کی فضا قائم کی گئی پھر عیسائی اور دوسرے مذہبی گروپوں کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا ۔ اور یہ سب کچھ ان عناصر نے کیا جو ریاستی اداروں کی سرپرستی میں پنپتے رہے ۔ اور قائد اعظم کا پاکستان جو تھوڑا بہت رہ گیا تھا وہ بھی چھین لیا گیا۔

جہاں ایک طرف شیعہ گروہ ٹارگٹ کلنگ پر سراپا احتجاج ہیں وہاں ان کے مخالفین اہل سنت ولجماعت اور( سابقہ سپاہ صحابہ پاکستان ) اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے گروپ بھی ریاستی اداروں کی اپنے افراد کی گرفتاریوں پراحتجاج کر رہے ہیں اور شیعہ مخالفوں کے احتجاج کو ایک ڈرامہ قرار دیتے ہیں ۔ ان گروپوں کا کہنا ہے کہ جس طرح 1974 میں احمد یوں کو کافر قرار دیا گیا اس طرح شیعہ مسلک کے خلاف بھی ریاستی سطح پر قانون سازی کی جائے اور وہ اس کے لئے مسلسل جدوجہد جاری رکھنے کے لئے پر عزم دکھائی دیتے ہیں ۔ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ دو ہزار دہشت گردوں کو مار کر دہشت گردی ختم نہیں کی جاسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردو کے 5ا طراف ہیں ۔ سیاسی ، معاشی ، معاشرتی ، مذہبی اور عسکری۔ لیکن اس وقت صرف عسکری سائیڈ پر کچھ کام ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہ کہا کہ یہ احتجاج تب تک جاری رہے گا ۔جب تک ہماری بات نہیں سنی جاتی۔ میں مر جاﺅں گا میرے ساتھی یہ احتجاج جاری رکھیں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button