کیا امجد صابری کے لیے سب ہی دکھی ہیں؟
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ )معروف منقبت خواں، نعت خواں،قوال امجد صابری کی المناک شھادت نے ساری دنیا کو سوگ میں مبتلا کردیا، لیکن کئی لوگ اپنی سیاست چمکانے کے لیے صابری کے غم میں ڈوبے اہلخانہ کے جذبات سے کھیلنے سے باز نہیں آئے۔امجد صابری عاجزی و انکساری اور بڑے دل والا انسان تھا، یہی وجہ تھی ان کے جنازے میں لاکھوں عاشانِ رسول و آلِ رسول ﷺ نے شرکت کی۔اس کے بعد امجد صابری شھید کے گھر پر تعزیت کرنے والوں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔
زرائع کے مطابق کراچی کا علاقہ لیاقت آباد ایک مسیحا اور فرشتہ صفت انسان کی المناک شھادت کا غم منارہا ہے، امجد صابری سے پیار کرنے والے لوگوں کو ان کا نائٹ کرکٹ کھیلتے دیکھنا، ان کی حس مزاح سے لطف اندوز ہونا، گلی میں پان کی دکان پر جانا اور سب سے پیار و محبت سے پیش آنا یاد آتا ہے۔امجد صابری کی سالی نے اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم امجد صابری کی المناک شھادت پر تعزیت کرنے والوں کے بے حد شکر گزار ہیں لیکن ابھی تک امجد صابری کے بہیمانہ قتل کی خبر کے صدمے سے واپس نہیں آسکے، اب ان کے بچوں کے سر پر کون ہاتھ رکھے گا، اس خلاء کو کون پورا کرے گا ؟امجد صابری کی سالی نے شھید کی کمزور والدہ کو پکڑ رکھا تھا، جن کی آنکھیں شدت غم کی وجہ سے خشک ہوچکی ہیں۔
شھید امجد صابری کی والدہ کا کہنا تھا، ‘اب ہر رمضان شریف میں ہمارا گھر اور علاقہ امجد صابری کو یاد کرے گا، وہ کھلے گھر میں سحری اور افطار کرنا پسند کرتا تھا اور اس کھلے گھر میں ہمیشہ اس کے چاہنے والے موجود ہوتے تھے۔امجد صابری کی والدہ ’صابری خاندان کی پہچان غلام فرید صابری‘ کی بہت بڑی پینٹگ کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔انہوں نے اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا، ‘مجھے اس رمضان کے آغاز سے ہی کچھ عجیب سا محسوس ہورہا تھا، میں بہت بے چین تھی لیکن میں نے اس بارے میں امجد کو نہیں بتایا تھا، وہ اس رمضان بہت مصروف تھا، میرا بیٹا پہلے جیسا نہیں تھا، اس میں کچھ تبدیلیاں آگئیں تھیں۔امجد صابری کی والدہ نے ان کے کمرے کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے اس کی اتنی شہرت اور محبت کا اندازہ نہیں تھا۔انہوں نے بتایا، ‘میں صرف ٹیلی فون کی طرف تکتی رہتی ہوں، امجد نے ہی گھر پر ٹیلی فون لگوایا تھا کیونکہ مجھے موبائل چلانا نہیں آتا، وہ کبھی کبھی فون کرکے مجھے اطلاع دیتا تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور کہاں جارہا ہے۔
امجد صابری کی والدہ اپنے بیٹے کے قاتل تکفیری دہشتگردوںکی گرفتاری کے حوالے بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اب میری زندگی تبدیل ہوگئی ہے اور میری زندگی کا محور بس امجد کی بیوہ نادیہ اور اس کے 5 بچے ہیں۔امجد صابری کی والدہ کے ساتھ کئی خواتین اور دیگر لوگ بھی ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔اس موقع پر ایک خاتون نے امجد صابری کی والدہ سے مسکراتے ہوئے کہا ’آنٹی! آئیے آپ کے ساتھ اس موقع پر ایک سلیفی لیتے ہیں‘۔
کمرے کی دوسری طرف ایک کیمرہ مین بار بار امجد صابری کے بڑے بیٹے مجدد سے ایک ہی بات کہہ رہا تھا، جس پر ان کے بیٹے نے چڑ کر کہا کہ ‘میں تین بار کہہ چکا ہوں، آپ کب چپ ہوں گے؟ ‘دوسری طرف کالیار شریف کے سلسلہ نسب سے تعلق رکھنے والے امجد صابری کے پیر سید ایوب شاہ چشتی صابری، ان کے بڑے بھائی عظمت، ان کے دوست بلال اور صابری کے کزن افضل صابری اس موقع پر امجد صابری کو یاد کر رہے تھے۔اس موقع پر پیر سید ایوب شاہ چشتی صابری نے کہا، ‘امجد صابری میرا غرور تھا، میں نے صابری کو اس کے والد کے سالانہ عرس پر دستار بندی کے لیے چن لیا تھا، صابری نے عقیدت مندوں کے ساتھ روحانی حکم کی پیروی کی تھی۔
صابری کے دوست بلال نے بتایا کہ جب میں سرد خانے پہنچا تو اس وقت امجد صابری کو غسل دیا جارہا تھا، اس موقع پر ان کے 10 سالہ بیٹے عون کا اصرار تھا کہ وہ امجد صابری کے ساتھ جانا چاہتا ہے۔
افضل صابری کا کہنا تھا کہ جب میں امجد صابری کے گھر آیا تو ان کی اہلیہ شدت غم سے نڈھال تھیں، جو صابری کی میت کو جھنجھوڑتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی تک زندہ رہیں، کیونکہ امجد صابری نے اہلیہ سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹوں کو دلہن بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔کمرے کے باہر موجود ایک بزنس ٹائیکون نے صابری کی بچیوں کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور اپنے ساتھیوں کو کہا کہ یہ تصویریں سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کردی جائیں۔
کسی کے غم کے بارے میں تو پیش گوئی کی جاسکتی ہے لیکن معاشرے کی بے حسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، آج کل لوگ کسی کی بھی موت کے غم کا احساس تو نہیں کرتے، لیکن متاثرہ خاندان کے غم میں ضرور اضافہ کردیتے ہیں۔