بیت المقدس کی آزادی اور امتِ مسلمہ کی غفلت
تحریر: فدا حسین بالہامی
قبلہ اول کا تقدس:
قبلہ اول کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کیلئے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے، خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رخ کرکے اولین و سابقین مومنوں نے امام المرسلین کی پیشوائی میں نماز ادا کی۔ خداوند قدّوس نے اپنے محبوب کو معراج پر لے جانے کیلئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا۔ جب سے اس کی بنیاد پڑی ہے، خاصان خدا بالخصوص پیغمبروں نے اس کی زیارت کو باعث افتخار جانا ہے۔ بیت المقدس بارگاہ خداوندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے، جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدے سے نجات دلادی۔
ہمارا المیہ: افسوس صد افسوس کہ جو بیت المقدس مدت مدید سے خداجو افراد کے واسطے خدا نما ہو۔ جس نے پریشان فکروںکو مجتمع کر کے مسلمانوں کو مختلف الجہتی اور پراگندگی سے بچایا۔ جس نے فرزندان ِ توحید کی قوت ِ بندگی کو مرتکز (Concentrate) کیا۔ جس کی بنیاد خدا کے ایک برگزیدہ پیغمبر نے رکھی ہو، وہی قبلہ اول آج صیہونیت کے نرغے میں ہے اور بزبان حال دنیا کے تمام مسلمانوں سے اپنی بازیابی کا مطالبہ کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی زبوں حالی پر نوحہ کناں بھی ہے۔
قدس پر قابض اسرائیل کا معنی اور ہدف: قبلہ او ل اس اسرائیل کے قبضے میں ہے کہ جس کے لغوی معنی ہیں ”خدا سے گتھم گتھا ہونے والا“۔یہ معنی یہودیوں کی ایک معتبر کتا ب ( The Holy Sepulchre) میں بیان کئے گئے ہیں۔انسائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر کے مطابق ”لفظ ِاسرائیل “کے معنی ٰ” خدا کے ساتھ کشتی کرنے والا “ ہیں۔ (بحوالہ یہودی پروٹوکولز از: وکٹر ای مارسڈن )۔ اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل کی بنیاد ہی خدا ستیزی کے تصور پر مبنی ہے۔ یقینا ہر باغیرت مسلمان کے دل میں یہ بات کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے کہ خدا کا یہ گھر اسی خدا ستیز ریاست کے قبضے میں ہے۔ وہ اسکی جب چاہے بے حرمتی کا مرتکب ہوسکتی ہے اور کب سے اس تاک میں ہے کہ اسے مسجد اقصی ٰکی مسماری کا موقع فراہم ہو جائے۔
بیت المقدس ۔۔۔حق و باطل کے مابین پیکار کا مرکزی نقطہ: ظاہر ہے کہ صہیونی حکومت اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ عالم اسلام کے نزدیک بیت المقدس کامسئلہ کافی حساسیت کا حامل ہے۔ لہذا اس مکار حکومت نے بھی اپنی توسیع پسندی کے ایجنڈے میں یروشلم کو ہی مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ جس طرح عیسائی پادری اور حکمران صلیبی جنگوں سے قبل اور ان جنگوں کے دوران عیسائیوں کو غلط بیانی کے ذریعہ اکساتے تھے کہ وہ اس مقدس شہر کے حقیقی وارث ہیں۔ نیز اسی شہر میں حضرت مسیح دوبارہ ظہور فرمائیں گے وہ ہرسال اپنے پیروکاروں سے کہتے تھے کہ اگلے سال حضرت عیسی کا ظہور اسی شہر میں ہوگا۔ لہذا اس شہر کا ہمارے قبضے میں ہونا نہایت ہی اہم ہے۔ اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈبن گوریان نے صہیونی ایجنڈے کی سنگ بنیاد اس بیان سے ڈالی تھی کہ "یروشلم یہودی ریاست اسرائیل کا جزولاینفک ہے”۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے اس شہر کی بین الاقوامی حیثیت کے پیش نظریروشلم کو Corpus Separationیعنی "جدا گانہ شہر” قرار دیا تھا اور یہ بات بہ اتفاق رائے اقوام متحدہ میں طے پائی تھی کہ اس پر یہودی یا عرب حکمرانی کے بجائے اقوام متحدہ کے ماتحت ایک بین الاقوامی حکومت ہوگی۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی کے بل پر ابتدا سے ہی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو درخوار اعتنا نہ جانا اور مسلسل خلاف ورزی کرتا آرہا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی رسما ًاسرائیل کے خلاف قرار دادوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا غالبا اسرائیل دنیا بھر میں واحد ریاست ہے کہ جس کے خلاف اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ قرار دادیں پیش ہوئیں۔ بہر عنوان اسرائیل کی یہی کوشش رہی کہ یروشلم ان کے ناجائز قبضے کے پرکار کا مرکزی نقطہ رہے۔ مسلمانوں کے مقامات مقدسہ ان کے زیر نگین رہیں۔ اس سلسلے میں غاصب اسرائیلی حکومت نے یروشلم کے متعلق یہ تصور کیا کہ یہ شہر یہودی ریاست کا بادی اور دارالحکومت ہوگا۔ 1992 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ "ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادینی (سیکولر)اس کا عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاوں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو”۔
صہیونیت۔۔۔۔ منظم اور متعہد: صہونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح) ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی اور اسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے۔ دجل و فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شہر بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا۔ وقتا ً فوقتا ًاس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوشش کیں، حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی۔ بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی۔ بارہا مسجد اقصی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔ ا سرائیل کی نیت اور کاروائیوں کے پیش نظر 1986 میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر 19 کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی، جب مسلمانوں کے
مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی۔
بہرحال اسرائیل آزادی ¿ قدس و فلسطین کے سر خیلوں کے ٹھکانے لگانے کے پلان پر عمل پیرا ہے اور آزادی پسند فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ کر نے پر کمر بستہ ہے۔ اس کا زندہ ثبوت غزہ کا طویل مدتی محاصرہ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنی انتھک لگن اور محنت کے بل بوتے پر صہیونیوں نے پوری دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیا ہوا ہے۔ اس چھوٹی سی قوم نے اقوام ِ عالم کو اپنے فریب کاریوں کے دام میں اسیر کر لیا ہے۔ حتیٰ کہ امت ِ مسلمہ جیسی عظیم ملت بھی اس کی چالبازیوں کے سامنے فی الوقت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ چھوٹی سی قوم منظم و متحد اور متعہد ہے جب کہ بحیثیت ِ مجموعی امت ِ مسلمہ انتشار و افتراق اور بد عہدی میں اسوقت یگانہ روزگار ہے۔ اسرائیل اپنے تمام تر خفیہ اور آشکار منصوبوں پر سرگرم عمل ہے، چنانچہ امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نما 1948/11 مورخہ 31 مارچ 1948 کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا، اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل) کی عرب حکمران آبیاری کر رہے ہیں۔ اسکے مہیب سائے ان کے شاہی محلوں اور حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
۱۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
2۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ (جو اب تک جاری ہے)
3۔ پھر، پوری فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
4۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے)ارضِ اسرائیل کی توسیع
5۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)
عالم اسلام کا انتشار و افتراق: دوسری جانب امت مسلمہ کا حال نہایت ہی تشویش ناک ہے امریکی سامراجیت، اسرائیلی صیہونیت اور عالمِ عرب کی مطلق العنا ن آمریت پر مبنی سیاسی مثلث ہی ہے کہ جس نے پورے عالمِ اسلام علی الخصوص مشرقِ وسطیٰ کے امن و سکون کو غارت کرکے رکھ دیا ہے۔ شام گزشتہ تین سال سے متحارب قوتوں کی خونی چپقلش کا شکار ہے۔ عراق چو طرفہ دہشت گردی کی آگ میںجل رہا ہے۔ مصر میںجمہوریت کی لاش تاناشاہی کی سولی پر ہنوز لٹکتی دکھائی دے رہی ہے۔ لبنان مسلکی منافرت اور تنازعات کے بارود کی ڈھیر ر کھڑا ہے بحرین میںجمہوریت نواز عوامی تحریک کا گلا وہاںکی شہنشہاہی نے جوروجبر کے ہاتھوں دبا رکھا ہے۔ اسرائیل طرز کی جارحیت سے یمن کو تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ لیبیا اور تیونس میں مطلق العنان حکومتوںکا بھیڑا غرق تو ہوا ہے۔ لیکن وہاں کے نظام حکومت کا سفینہ اب بھی ایک منزل شناس توانا اور پرسوز ناخدا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ عالمِ اسلام کے مرکز سعودی عربیہ میں عرصے سے ایک ہی خاندان سے وابسطہ افراد پوری مملکت کے سیاہ و سپیدہ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ملک کے بیشتر وسائل آلِ سعود کے شاہوں اور شہزادوں کی خرمستی اور عیش پرستی پر صرف ہو رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اپنے عشرت کدوںکو محفوظ رکھنے کی خاطر یہ حکمران ٹولہ امریکہ کی غلامی اور اسرائیل نوازی میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ حتیٰ کہ صہیونی اور سامراجی منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے آل سعود حکومت نے مصر میں صدر ڈاکڑ محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو ختم کرنے اور اپنے جیسا صہیونیت نواز ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی کو برسر اقتدار لانے کے لئے بیس عرب ڈالر خرچ کئے، حال ہی میں اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے سب سے متمول شہزادے طلال بن ولید نے ببانگ ِ دہل کہا ہے کہ وہ ہمیشہ فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کے طرفدار ہیں اور آئیندہ بھی اسرائیل کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ لیبیا اور تیونس میں مطلق العنان حکومتوں کا بھیڑا غرق تو ہوا ہے۔ لیکن وہاں کے نظام حکومت کا سفینہ اب بھی ایک منزل شناس توانا اور پرسوز ناخدا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ المختصر بطورِ مجموعی عالمِ اسلام علی الخصوص مشرق وسطیٰ کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
حرج و مرج کا بنیادی ہدف: بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ متذکرہ بالا مملکتوں میں حالات کی ابتری کے اسباب مختلف ہیں اور ان مختلف اسباب کے مابین کوئی واضع علاقہ بھی نہیں ہے۔ لیکن دقعتِ نظری سے دیکھئے تو ان تمام حالات کے مختلف دکھائی دینے والے عوامل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ عالمی طاغوت کی خلق کردہ قتل و غارت گری اور انتشار و افتراق کا مدعا و مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسرائیل تمام تر خطرات سے محفوظ رہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی طاغوت کی لوٹ کھسوٹ اور بالا دستی برقرار رہے اور عرب ممالک میںموجود مطلق العنان نظام حکومت پھلتا پھولتا رہے۔ یہ سب جب ہی ممکن ہے کہ جب مسئلہ فلسطین جوں کا توں رہے۔ کیونکہ فلسطین کی محکومی نیز بیت المقدس پر صہیونیوں کا ناجائز قبضہ اصل میں عالم اسلام کی ناتوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ جس روز مسلم ممالک کی مشترکہ جدوجہد سے فلسطین اور بیت المقدس آزاد ہوگا یقینا وہ دن اسلام کیلئے باعثِ افتخار ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی عظمت اپنے آپ ہی لوٹ آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ سیاسی مثلث (اسرائیلی صہیونیت، امریکی سامراجیت اور عربی
آمریت) نے مشترکہ طورامت مسلم ایسے خفیہ اور آشکار منصوبوں پر کام کیا کہ جسے بقول ِ حکیم الامت
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کرتا ہے گاز
اسرائیل کی جنگ عراق و شام میں:
یہی وجہ ہے کہ مشترکہ اساس سے پہلو تہی کرتے ہوئے قوم پرستی (nationalism)، مسلکی اور دیگر فروعی اختلافات پر مسلمان آپس میں دست گریبان ہوکر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ یا بیرونی حملہ آوروں کی وحشت ناک صفا کی کی زد میں ہیں۔ اس کربناک صورت ِ حال کو وجود میں لانے کا اولین مقصد یہی ہے ان کا (مسلمانانِ جہاں ) کا مشترکہ دشمن بے فکر ہوکر چین کی نیند سو سکے۔ کیا یہ بات قابل ِ تجزیہ نہیں کہ داعش اور اس طرح کی دیگر دہشت گرد تنظیمیں جو عراق و شام میں اسلامی خلافت قائم کرنے کے دعوے دار تو ہیں۔ لیکن آج تک انہوں نے اسلام کے سب سے بڑے دشمن یعنی اسرائیل کی جانب ایک آدھ پتھر بھی نہ پھینکا۔ بلکہ ان کے مضروب جنگجووں کا علاج اسرائیل کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔
اسرائیل کی جوابی منصوبہ بندی اور پیش قدمی:
۶۰۰۲ اور ۸۰۰۲ میں حزب اللہ اور حماس کی بالترتیب مقاومت، عسکری قوت اور مردانہ جرات نے صہیونیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کوئی ایسا محاذ کھولا جائے، جہاں اسرائیل کو اپنی بقا کی جنگ میں شامل ہوئے بغیر ہی اپنے دشمن پر وار کرنے کا موقع ملے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا دنیا بھر میں شدت پسندوں کو امریکہ برطانیہ، فرانس اور دیگر عرب ممالک کی بھرپور معاونت سے شام اور عراق لایا گیا۔ حکمتِ عملی اور مقصد کا تعین اسرائیل نے کیا۔ اس” جہاد “کو امریکہ نے دل کھول کر قدمے، سخنے، درہمے حمایت کی۔ استعمار کے غلام حکمرانوںعلی الخصوص قطر اور سعودی عربیہ نے بے دریغ اپنے خزانے صہیونیت کے برپا کردہ جہاد پر لٹائے۔ نتیجتاً اسرائیل کا دیرینہ دشمن شام داخلی طور عدمِ استحکام سے دوچار ہوا۔ اسطرح اسرائیل نے اپنی مکارانہ پالیسی سے عالمِ عرب کے ایک اکیلے خطرے کا رخ کسی اور جانب موڑ دیا۔ ظاہر ہے کہ شام میں باغیوں کو کچھ ایسے اقدامات اٹھانے کی پہلے سے ہی ہدایت دی گئی تھی، جسے حزب اللہ کو بھی اس تنازعہ میں ایک متحرک فریق کے طور کودنے کی تحریک مل گئی اور ایران کی القدس فورس کو صہیونیت کے ساتھ براہ راست بھڑنے کے بجائے داعش جیسے صہیونیت کے مہروں کو ٹھکانے لگانے پر اپنی قوت صرف کرنا پڑ رہی ہے۔
فلسطینی مجاہدوں کی بے نظیر قربانیاں اور عالم اسلام کی بے التفاتی:
قابل ستائش بات یہ ہے کہ ایک جانب اگر بیت المقدس کے قریب و جوار میں اسرائیلی حکومت نے ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا تاکہ وہ شعائر اللہ کی تعظیم اور بیت المقدس کی بازیابی کے ارادے سے باز آجائیں، تو دوسری جانب حضرت ابراہیم ؑکی سنت کی تقلید میں سینکڑوں فلسطینی والدین نے اپنے لخت ہائے جگر قبلہ اول کی تقدیس میں قربان کئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی عظیم قربانیاں رائیگان ہوتی دکھائی دیتی ہیں، کیونکہ ما سوائے چند مسلم ممالک فلسطینیوںکی نمائندگی اور حمایت کرنے سے کترارہے ہیں۔ مسجد اقصی کے درو دیوار مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار پر لرزاں و ترساں ہیں اور مسلم حکومتوں کے سربراہ اپنے عشرت کدوں میں بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ ان شعائر اللہ کا اغیار کے قبضے میں ہونا اور ان کی روزانہ توہین در اصل مسلمانان عالم کی لاچاری و محکومی کی کھلی دلیل ہے۔ جہاں تک مسجد اقصی کی بازیابی کا تعلق ہے یہ کسی خاص خطہ یا فرقہ کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے وابستہ نہیں ہے، بلکہ مذہبی اور اخلاقی طور پر فرض عائد ہوتا ہے کہ عالمی پیمانے پر حتی الوسع آزادی قدس کی تحریک کا اہتمام کریں۔ جو جذباتی وابستگی، روحانی وابستگی اور قلبی احترام کعبہ شریف کے تئیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے۔ وہی احترام و تقدیس قبلہ اول کے حوالے سے بھی ہونا چاہئے تو پھر اس طرح کے سوالات حقیقی مسلمان کے دل کو بے چین کیوں نہ کریں کہ بیت المقدس کی صیہونیت کے چنگل سے رہائی کے سلسلے میں عالمی پیمانے پر کوئی تحریک چلائی کیوں نہیں جاتی؟ کیوں اس مسئلے کو طاق نسیاں کے حوالے کیا گیا ہے؟ کیوں اس معاملے میں مسلم حکومتیں بالخصوص مشرق و سطٰی اور عرب ریاستوں کے حکمران سرد مہری کے شکار ہوئے؟
ایک غیر حقیقی طرزعمل:
یہ صورت حال ایک حساس مسلمان کا سکونِ قلب غارت کیوں کر نہ کرے کہ ایک طرف عہد حاضر کا ابرہہ جدید کیل کانٹوں سے لیس ہوکر برسوں سے مرکز اول پرقابض ہے اور عالم اسلام کے لیڈر محض دعا کرتے ہیں کہ رب کعبہ ایک بار پھر سے لشکر ابابیل فضائے فلسطین میں بھیج دے۔ محض دعاوں پر انحصار کرنے والے لیڈرانِ قوم کی یہ نفسیات پوشیدہ نہیں رہ پائی کہ وہ ایک غیر حقیقی طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں، نیز حرکت و عمل اور قربانی کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے محض نیک جذبات سے کام چلا لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ربِ لامکان چاہے تو آج کے جدید دور میں بھی معجزہ ابابیل دہرا کر اپنے گھر کو اسرائیلی غاصبوں کے قبضے سے آزاد کرا سکتا ہے۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ پھر قریبا 58ممالک پر مشتمل ایک ارب سے زائد مسلمانوں کا وظیفہ کیا ہے؟ خانہ کعبہ پر ابرہہ کی فوج کشی کے زمانے کی صورت حال اور مسجد الاق
صی کے گردا گرد صہیونی حصار کا مسئلہ مختلف ہے۔ اس زمانے میں کوئی مسلم ریاست تھی نہ توحید پرستوں کی کوئی پہچان تھی۔ برعکس اس کے آج دنیا کے کونے کونے میں مسلمان قوم واحد یعنی امت مسلمہ سے منسلک ہیں اور اللہ کے گھر کی محافظت انکی ملی ذمہ داری ہے۔ یقینا اللہ مسلمانوں کا ناصر و مددگار ہے، لیکن اس الہی قانون سے یہ ملت بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
ایک امید افزاپہلو:
میں قیام اسرائیل سے بیشتر جو اہداف متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق صیہونیوں کے پیش نظر تھے، ان میں سے بیشتر اہداف کی حصول یابی میں اسرائیل کامیاب ہوا ہے اور دیگر اہداف کی جانب بڑی سرعت کے ساتھ گامزن ہے۔ اس کی توسیع پسندانہ عزائم کسی خاص منزل پر پہنچ کر اطمینان کی سانس نہیں لیتے۔ بلکہ مقررہ ہدف کے بعد ایک نیا ہدف طے پاتا ہے۔ اس تناظر میں بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ قبلہ اول پر قابض اسرائیل کی نظریں مسلمانوں کے موجودہ قبلہ پر ہیں اور وہ اسی فراق میں ہے کہ کب اس کے پنجہ ناپاک حرم پاک کی غلاف تک پہنچیں۔ اے کاش خادمین حرمینِ شریفین کو اسرائیل کے آئندہ منصوبوں کا ادراک ہو تو انہیں غزہ میں حماس اور جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے جیالے حرم کعبہ کے محافظ نظر آئیں گے۔ اس لحاظ سے غزہ کے معصوم بچے حضرت اسماعیل کی رسمِ نبھاتے ہوئے حرمِ کعبہ پر قربان ہورہے ہیں۔ اور وہاں کے والدین حضرت ابراہیم و حاجرہ پر عمل پیرا ہوکر تقدیسِ بیت المقدس اور حرمتِ کعبہ کیلئے لاڈلوں کو بہ رضا و رغبت قربان گاہ میں پیش کررہے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اسرائیل کی میلی آنکھ اگر حرم پاک پر ہے تو عالمِ اسلام کو اپنے تمام مسائل کے حل کی خاطر آزادی قدس کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔ اور ان تمام سازشوں سے آگاہ رہنا ہوگا۔ جن سے صیہونیت نے عالمِ اسلام کو قوم پرستی، نسل پرستی اور مسلکی منافرت کے مختلف سرد خانوں میں جامد اشیا کی طرح رکھا ہے۔