پاکستانی شیعہ خبریں

کوئٹہ دہشتگردی کے واقعات: بلوچستان میں دہشت گرد پھر سر اٹھا رہے

شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت میں مسلسل دوسرے روز بھی دہشت گردی کے واقعہ میں ایف سی کے 4 جوان شہید اور ایک زخمی ہو گیا۔ ترجمان فرنٹیئر کور خان واسع کے مطابق دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار دہشت گردوں نے ڈبل روڈ کے علاقہ میں ایف سی کی گاڑی پر فائرنگ کر دی تھی۔ ایف سی ذرائع نے بتایا کہ حملے کا نشانہ بننے والے اہلکار اس علاقہ میں گاڑی مرمت کرانے کے لیے گئے تھے کہ واپسی پر موٹر سائیکل سوار دہشتگردوں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ کراچی میں امجد صابری کی ٹارگٹ کلنگ اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کے اغوا کے بعد کوئٹہ میں مسلسل دو روز دہشت گردی کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ کے توقف کے بعد انتہا پسند اور ملک دشمن عناصر ایک بار پھر سرگرم ہو رہے ہیں۔۔ ان حملوں‌کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی کے ترجمان نے واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ شرپسند عناصر کی جانب سے قانون کے رکھوالوں پر اس طرح کے بزدلانہ حملے ان کا مورال نہیں گرا سکتے، سیکیورٹی فورسز دل جمعی کے ساتھ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے مصروف عمل ہیں۔ گزشتہ روز آواران کے علاقے مشکے میں سیکیورٹی فورسز کے سرچ آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 3 شرپسند ہلاک ہو گئے۔ جب کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ شرپسند عناصر قانون کے رکھوالوں کے علاوہ سیاسی و سماجی شخصیات کو بھی اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔اس حقیقت سے نگاہیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ بلوچستان کا خطہ ایک عرصے سے بدامنی کی آماجگاہ ہے، اس صوبے کے عوام سہولیات سے بے بہرہ اور ناانصافی کا شکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں شرپسند و دہشت گرد عناصر کو پنپنے کا موقع باآسانی مل سکا، لیکن اس کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بدامنی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔دہشتگردی کے واقعات کے بعد وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے دہشتگردوں کو کچلنے اور ان کا عرصہ حیات تنگ کرنے کے بیانات کی حیثیت لفاظی سے زیادہ نہیں ہے بلوچستان کے حالات کو ایک پلاننگ اور حکمت عملی کے تحت ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں اڑھائی برس تک وزیر اعلیٰ رہنے والے ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات ہوتے رہے اور کچھ لوگوں نے ہتھیار بھی ڈال دیئے تھے۔ یہ سلسلہ زہری کے دور میں بھی جاری رہا مگر اب دہشتگردی کے پے در پے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت ڈاکٹر مالک کے پروگرام کو کامیابی سے آگے لیکر نہیں چل رہی۔ بلاشبہ بلوچستان کی بدامنی میں بھارت ملوث ہے۔ اس کا ہماری ایجنسیوں کو توڑ کرنا اور وفاقی حکومت کو معاملہ عالمی سطح پر اٹھانا چاہیے۔ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور مرکز و صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے۔ بلوچستان میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آج کے حالات کو آئیڈیل کہا جا سکتا ہے۔ بلوچستان خصوصی طور پر کوئٹہ میں فرقہ واریت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں دہشتگردی کے اس عنصر پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ضرب عضب کی کامیابی کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل ضروری ہے۔ دہشتگردوں کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالنا بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے مگر اس شق پر عمل نہیں رہا‘ جب تک نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ملک سے کسی بھی قسم کی دہشتگردی کا مستقل خاتمہ ممکن نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button