مضامین

لانگ مارچ۔۔۔ فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں

تحریر: نذر حافی

اخلاق سے افکار و اقدار کو تبدیل کرنے کا نام اسلام ہے۔ اسلامی اخلاق کا منبع انسان کا ضمیر ہے۔ اگر انسان کا ضمیر زندہ ہو تو وہ کبھی بھی اخلاقیات کو پامال نہیں کرتا۔ کوئی بھی شخص جتنا بے ضمیر ہوتا ہے، اتنا ہی بد اخلاق اور منہ پھٹ بھی۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ بد اخلاقی پر اتراتے تھے، ظلم کرنے پر فخر کرتے تھے، لڑائی جھگڑے کو بہادری سمجھتے تھے اور اخلاقی معائب کو انسانی کمالات کا نام دیتے تھے۔ انبیائے کرام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے زبردستی لوگوں کی عادات نہیں بدلیں بلکہ اپنی سیرت و اخلاق کو لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کے مردہ ضمیروں کو زندہ کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ الٰہی نمائندے پتھر کھاتے ہوئے تو نظر آتے ہیں لیکن مارتے ہوئے نہیں، اسی طرح گالیاں سہتے ہوئے تو دکھائی ہیں لیکن دیتے ہوئے نہیں۔ الٰہی نمائندوں نے اپنے روشن کردار کے ذریعے اہلِ دنیا کی تاریک سوچ کو روشن افکار میں تبدیل کیا ہے۔ مقامِ فکر ہے کہ اگر الٰہی نمائندے بھی ظالموں سے مقابلے کے لئے ظلم کا راستہ ہی اختیار کرتے، وحشت و بربریت کے خاتمے کے لئے وحشت و بربریت کو ہی استعمال کرتے تو آج دنیا کا حال کیا ہوتا!!!؟

الٰہی نمائندوں کی زحمات اور نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ مقدس ہدف تک پہنچنے کے لئے وسیلہ بھی مقدس ہونا چاہیے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنا ایک مقدس ہدف ہے، لیکن اس ہدف کو کسی غیر مقدس وسیلے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا اتنا ہی قبیح ہے جتنا کہ خود دہشت گردی۔ حضرت حمزہ کے چبائے ہوئے جگر سے لے کرسبطِ رسولؐ کے تابوت پر لگے ہوئے تیروں نیز میدان کربلا میں مرجھائے ہوئے لبوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مظلوموں نے کبھی بھی ظالموں کے نقشِ قدم پر قدم نہیں رکھا۔ اہلِ حق نے کبھی بھی اخلاقی اقدار کو پامال نہیں کیا اور انسانی کرامت کی دھجیاں نہیں اڑائیں۔ پوری تاریخ بشریت میں الٰہی نمائندوں کی یہی اخلاقی فتح ہی ظالموں کی شکست کا سبب بنتی رہی ہے۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ دنیائے ظلم ہمیشہ اعداد و شمار اور لاولشکر کے اعتبار سے برتر ہونے کے باوجود اہل حق کی اخلاقی جرات کے ہاتھوں مغلوب ہوتی رہی۔

اس وقت پاکستان کی کربلا میں بھی ظالموں کے خلاف ایک احتجاج جاری ہے۔ اگر ہم نے اس احتجاج کو موثر بنانا ہے تو پھر اپنی مظلومیت بھری تاریخ سے سبق لینا ہوگا۔ ہر سال دس محرم الحرام کو نواسہ رسول ؐ سے اظہار یکجہتی کے لئے اور جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے سلسلے میں پوری دنیا میں ظلم کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔ یہ احتجاج بظاہر خالی ہاتھ کیا جاتا ہے۔۔۔ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ دس محرم الحرام اور یوم القدس کو ہونے والے اس احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں!؟ حق بات تو یہ ہے کہ اس احتجاج کے فوائد و ثمرات کو مکمل طور پر ابھی تک عقل بشر درک نہیں کرسکی۔ دس محرم الحرام اور یوم القدس کا عالمی احتجاج ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر احتجاج کو اس کی زمانی و مکانی شرائط اور زینبی (ع) حوصلے کے ہمراہ انجام دیا جائے تو خالی ہاتھوں اور لبیک یاحسین (ع) کے نعروں سے بھی قصر شاہی کی بنیادوں کو ہلایا جاسکتا ہے۔

اگر سیدِ سجادؑ کے اخلاق کے مطابق بے ضمیروں کو جگایا جائے تو بہتے ہوئے اشکوں سے بھی ظلم کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔ اگر ہم تخریب، تنقید اور اخلاقی پستی سے جان چھڑوا کر اپنی زندہ ضمیری، خوش اخلاقی، سیاسی تقویٰ اور بصیرت کا ثبوت دیں تو آج بھی پاکستان میں یہ خالی ہاتھ احتجاج اور لانگ مارچ کوفہ و شام کے بازاروں کا منظر پیش کرسکتا ہے۔ اگر ہمارے اپنے ضمیر جاگ جائیں، ہمارے اپنے تنظیمی و اجتماعی اخلاق کی اصلاح ہوجائے تو پھر۔۔۔
بلا شبہ۔۔۔
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اہلِ حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button