مضامین

عبدالستار ایدھی اور انتہا پسند ملّا

تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

عبدالستار ایدھی جن کے لئے ایک دنیا طرح طرح کے القاب اور خطابات تجویز کر رہی ہے اور جنھیں ان کی زندگی میں بھی بے پناہ ایوارڈز نصیب ہوئے، ان کی پس مرگ مذمت کے سلسلے بھی جاری ہیں۔ ان کے مختلف ’’عیب‘‘ گنوائے جا رہے ہیں۔ یہ عیب جو اور نکتہ چیں ان کی زندگی میں بھی اپنے حصے کا کام کرتے رہتے تھے۔ انسانوں کے اس خدمت گزار کے فرزند فیصل ایدھی نے اس حوالے سے اپنا غم بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بیان کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق: ملاؤں اور قدامت پسند عناصر نے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ان کے والد کو ہمیشہ پریشان کیا۔ خاص طور پر رمضان کے مہینے میں ایک منصوبے کے تحت یہ افواہیں پھیلائی جاتی رہی ہیں کہ ایدھی صاحب انتقال کر گئے ہیں، چونکہ بہت سے لوگ ایدھی صاحب کی شخصیت اور ان کے کام کی وجہ سے چندہ دیتے ہیں، اس لئے کچھ عناصر منفی پروپیگنڈے اور افواہوں کے ذریعے لوگوں کو چندہ دینے سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ یہ افواہیں کون پھیلاتا ہے، فیصل ایدھی نے کہا کہ یہ کام وہ لوگ کرتے رہے ہیں جو غیر ترقی پسند، رجعت پسند اور انتہا پسند سوچ رکھتے ہیں۔ ملاؤں نے ہمیشہ سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر ایدھی صاحب کو پریشان کیا ہے۔ ملاؤں نے ہمیشہ جمعے کی نمازوں میں ان کو کبھی قادیانی بنایا، کبھی انھیں کافر بنایا تو کبھی آغا خانی بنایا اور لوگوں سے درخواست کی کہ انھیں چندہ نہ دیں۔

فیصل ایدھی کا مزید کہنا تھا کہ حالانکہ مدرسوں اور مسجدوں کے مقابلے میں انھیں بہت کم چندہ ملتا ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں یہ لوگ ایدھی صاحب کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہتے تھے۔ ان دنوں انتہا پسندوں کے ترجمان مولوی عبدالعزیز ناصر کی ایک تحریر کو سوشل میڈیا پر خاص حلقوں میں مقبولیت حاصل ہے۔ انھوں نے ایدھی مرحوم کے مذہبی پہلو کے بارے میں لکھا ہے: ’’مذہبی پہلو اتنا خوفناک اور بھیانک ہے کہ آج کل کی عجلت پسند عوام کافر سے کم پر راضی نہ ہو۔‘‘ مولوی عبدالعزیز ناصر نے سب سے پہلے جس بات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وہ عبدالستار ایدھی کا یہ بیان ہے: ’’میرے نزدیک اسلام کے ارکان چھ ہیں بلکہ حقوق العباد سب سے زیادہ اہم ہیں۔‘‘ انھیں یہ بھی اعتراض ہے کہ وہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو پناہ دیتے تھے۔ انھیں اور ان جیسوں کو ایدھی مرحوم کا یہ کام بھی کھلتا ہے کہ وہ ایسے بچوں کو پالتے تھے، جن کے ماں باپ کا پتہ نہیں ہوتا تھا۔ انھوں نے ایدھی کے اس نظریئے پر بھی اعتراض کیا ہے کہ عیدالاضحٰی پر قربانی سے بہت گند پڑتا ہے، یہ پیسے غریبوں کو دے دیئے جائیں۔

کہنے کو تو مولوی صاحب نے ایدھی مرحوم کے مذہبی پہلو کو الگ اور فلاحی پہلو کو الگ بیان کیا ہے، لیکن فلاحی پہلو کے زیر عنوان بھی انھوں نے ایدھی پر تیر و نشتر برسانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ ان کی یہ سطریں ان کے اندر کی کیفیت کی غماز ہیں: اس باب میں اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو خدمت خلق کا بڑا تابناک باب نظر آتا ہے لیکن جہاں تک میری ’’مولویانہ‘‘ سمجھ شریف میں بات آئی ہے کہ یہ سب ایک بہت بڑا مفسدہ ہے اور ایک عالم نے یوں ہی بے ساختہ نہیں کہہ دیا کہ ’’ایک تخریب کار اپنے انجام کو پہنچا۔‘‘ انہی پر کیا بس ہے ہم اپنے مشرب احتیاط کے پیش نظر انتہا پسند مولوی صاحبان کی بہت سنگین عبارتیں نقل کرنے سے قاصر ہیں۔ صرف جامعہ احسن العلوم کراچی کے محترم مولانا مفتی زرولی خان کے ایک بیان کی طرف مزید اشارہ کرنا چاہیں گے، جو سوشل میڈیا پر ویڈیو کلپ کی صورت میں موجود ہے۔ وہ عبدالستار ایدھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ تو چھوڑو وہ لوگ جا کے زندیق کے ادارے کو دیتے ہیں۔ صدقے کے بکرے وہاں دیتے ہیں، زکوٰۃ خیرات وہاں دیتے ہیں، جو کہتا ہے میں بڑا کام کر رہا ہوں۔۔۔ آپ کے خرچے پر حرامیوں کی تربیت ہو رہی ہے۔‘‘

اس کلپ کو سنیں تو معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح سے دوسرے مسلک کے ماننے والوں کے لئے متشددانہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ ایک مسلمان کے بارے میں کہ جب وہ بیمار تھا اور ایدھی صاحب مرحوم مولوی صاحب کے پاس کسی ریسٹ ہاؤس میں دعا کے لئے پہنچے تو اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’۔۔۔ وہ بیمار ہوگیا تھا ایک رات میں تین مرتبہ یہ شخص گاڑی میں آیا ہے میرے پاس ریسٹ ہاؤس میں، مجھے کہتا ہے آپ دعا کریں، میں نے کہا میں تو لعنت کرتا ہوں آپ پر اور میں کیوں دعا کروں۔۔۔‘‘ آپ فیصل ایدھی کا مذکورہ بالا بیان غور سے پڑھیں اور پھر دارالعلوم کے مولوی صاحب کا بیان، آپ کو یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ اختلاف کی بنیادی وجہ ہے کیا۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ مولوی صاحبان کے فتوے اور گوہر افشانیاں پا در ہوا ہوگئیں اور ایک دنیا آج اس درویش صفت انسان کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے کہ جو ایک پرانے سے کپڑوں کے جوڑے میں اس طرح سے رخصت ہوا کہ اس کے بدن کے ساتھ اس کی آنکھیں نہ تھیں۔ وہ قبر کے باہر تماشۂ اہل کرم دیکھ رہی تھیں۔ اگر مولوی صاحبان ایک طرف کہہ رہے تھے ’’ایک تخریب کار اپنے انجام کو پہنچا‘‘ تو دوسری طرف مسلمان اور غیر مسلمان کی تفریق کے بغیر پوری خلق خدا اس کو خراج عقیدت پیش کر رہی تھی۔ کافر و مسلم کی تمیز کے بغیر انسان کی فطرت الٰہی اس کی تعریف میں رطب للّسان تھی۔

پاکستان کا تو وہ مایۂ ناز سپوت تھا ہی، لہٰذا یہ
اں فقیر و درویش کی جھونپڑی سے لے کر ایوان اقتدار کی فضاؤں سے اس کے لئے عقیدت و محبت کی خوشبوئیں بکھیری جا رہی تھیں۔ ملک سے باہر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بابائے خدمت کو نذانہ عقیدت پیش کیا۔ فوربز میگزین نے ایک مضمون میں لکھا: ’’نچلی ذات، اچھوت اور فرقہ واریت کے شکار افراد کی لاشیں جنھیں کوئی چھونا نہیں چاہتا تھا اور جو لاشیں بوریوں میں بند ہوتی تھیں، انھیں کوئی نہیں، صرف ایدھی اٹھاتے تھے اور انھیں عزت کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا۔‘‘ انتہا پسند ملّا جن لاشوں کو گدھے کی کھال میں سی کر آگ لگا دینا چاہتے تھے اور جن لاشوں پر وہ گھوڑے دوڑانا چاہتے تھے، انھیں ایدھی اٹھاتے تھے اور عزت کے ساتھ دفن کرتے تھے۔ ملّا کو یہ بات پسند نہ تھی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا: ’’عبدالستار ایدھی عظیم انسان تھے، ان کی موت پر شدید دکھ اور افسوس ہوا۔ ایدھی جیسے عظیم انسان روز پیدا نہیں ہوتے۔‘‘ ساری دنیا میں نفرت آمیز بارود کی بدبو تقسیم کرنے والے انتہا پسندوں کو ’’عظیم انسان‘‘ کا مطلب سمجھ نہیں آسکتا۔

نیویارک ٹائمز نے ایدھی کو اپنے ایک مضمون میں ’’فادر ٹریسا‘‘ کہا۔ جس ملّا نے مدر ٹریسا پر بھی لعنت بھیجی ہو، وہ فادر ٹریسا پر رحمت کیسے بھیج سکتا ہے۔  واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے: ’’ایدھی نے انتہائی سادگی سے زندگی گزاری، ان کے پاس شلوار قمیض کے صرف دو جوڑے تھے، ان کی فاؤنڈیشن کا خرچہ لوگوں کے دیئے ہوئے عطیات سے چلتا تھا، ضرورت پڑنے پر وہ کراچی کی گلیوں میں اپنی جھولی پھیلا کر بھی بیٹھ جاتے تھے اور لوگ ان کی مالی امداد کرتے تھے۔‘‘ انتہا پسند ملّا کو غصہ تو یہ ہے کہ لوگ ان کے خوفناک اور بھیانک خطاب سے متاثر ہو کر اتنا چندہ ان کو کیوں نہیں دیتے، جتنا وہ ایدھی کے میلے کچیلے دامن میں ڈال دیتے تھے۔ ملّا کو یہ معلوم نہیں کہ یہی وہ دامن ہے جس کے بارے میں یہ بات صادق آتی ہے:
’’دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘‘

انتہا پسند ملا کی مشکل یہ ہے کہ وہ ایک عام سادہ غیر مذہبی آدمی کے سراہے جانے کو پسند نہیں کرتا۔ عبدالستار ایدھی کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے کہ ان کے سارے کاموں کو رائج مذہبی پیمانوں پر پرکھا جائے۔ ان کا اپنا ایک انسانی شعور تھا، اللہ تعالٰی کے حضور اسی شعور کی بنیاد پر اور ان کی نیت کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا، اگر ان کا دل تکلیف میں دیکھ کر کسی انسان کے لئے تڑپ اٹھتا تھا تو اس انسان کا خالق اپنے اس بندے کو اپنے کرم کی چھتری کے نیچے آنے سے محروم نہ رکھے گا۔ ہم نے علمائے کرام سے ہی سنا ہے کہ ایک بدکار عورت نے پیاسی بلی کو پانی پلایا تو اس کو جنت کی بشارت دی گئی۔ بشارت دینے والا رسولؐ کیا لاکھوں دکھی انسانوں کی مدد کرنے والے اپنے ایک امتی کی شفاعت نہ کریں گے۔ بقول علامہ اقبال:
’’کیا دُرِ مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے‘‘

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button