پاکستانی شیعہ خبریں

اے پی ایس حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت پرسانحہ اے پی ایس شہداء کے لواحقین کا اطمینان

شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) پشاور: خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر نارے کی ہلاکت پر اے پی ایس شہداء فورم کے جنرل سیکریٹری عجون خان نے اسے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ 16 دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، جس میں150 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں 130 سے زائد بچے شامل تھے اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلیفہ عمر نارے نے مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں شہید ہونے والے دسویں جماعت کے طالب علم اسفندخان کے والد اور اے پی ایس شہداء فورم کے جنرل سیکریٹری عجون خان نے نجی ٹی وی چینل کے نمائندہ  سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر نارے کی ہلاکت کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم اس قسم کی کامیابی کا انتظار کررہے تھے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے بچوں کی روحیں جنت میں اطمینان سے ہوں گی’۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ حملے کے دیگر سہولت کاروں کو بھی سامنے لایا جائے اور انھیں عوامی سطح پر سزائیں دی جائیں۔ اے پی ایس شہداء فورم کے جنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ واقعے میں سیکیورٹی کے حوالے سے کوتاہی اور غفلت برتنے والوں کے خلاف بھی تحقیقات کی جائیں۔ ادھر مقتول اسنفدخان کی والدہ نے بھی حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کامیابی قرار دیا ہے۔

اے پی ایس حملے میں شہید ہونے والے ایک اور طالب علم محمد علی خان کے والد شہاب نے عمر نعرے کی ہلاکت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے کامیابی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ملوث دہشت گردوں کو سزا دینے کا اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ شہاب نے یہ مطالبہ کیا کہ حملے میں ملوث اندرونی ہاتھوں کو بھی بے نقاب کرکے عدالت کے کٹھرے میں لایا جائے۔ منتخب عوامی نمائندوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘صوبائی اور وفاقی حکومت میں سے کوئی بھی اے پی ایس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحیقین سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں’۔

آرمی پبلک اسکول حملے میں شہید ہونے والے دو بھائیوں کے والد طارق جان نے بتایا کہ عمر نعرے کے ہلاک ہونے کی خبر خوش آئند ہے لیکن یہ ناکافی ہے، کیونکہ ہم اس حملے میں ملوث تمام دہشت گردوں اور واقعے کے تمام ذمہ داروں کی سزا کے منتظر ہیں۔ نویں جماعت کے طالب علم عدنان حیسن، جو اے پی ایس حملے میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے، کے والد محمد حسین کا کہنا تھا کہ عمر نعرے کی ہلاکت اطمینان بخش ہے لیکن ہم آخری دہشت گرد کی ہلاکت تک اطمینان کی نیند نہیں سو سکتے اور ایسے افراد جو کہ بل واسطہ اور بلا واسطہ اس حملے میں ملوث تھے۔

خیال رہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے رواں برس 25 مئی کو عمر نارے کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا جبکہ اس سے قبل 21 مئی کو بلوچستان کے ایک دور دراز علاقے میں امریکی ڈرون حملے میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے تھے۔ واضح رہے کہ نہ تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور نہ ہی کسی دوسرے گروپ نے باضابطہ طور پر آرمی پبلک اسکول حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور عرف عمر نارے کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے، تاہم اگر ان کی ہلاکت کی خبر درست ہوئی تو یہ تحریک طالبان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔

طالبان کمانڈر عمر نارے اہم دہشت گرد حملوں میں ملوث اور پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھا جاتا تھا۔ ایک سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان اکا اگلا ہدف عبد الولی عرف عمر خالد خراسانی اور مولوی فضل اللہ ہیں اور یہ دونوں افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان، افغانستان کے ساتھ مل کر خفیہ اداروں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرچکا ہے اور کابل نے اپنی سرزمین پر ان دہشت گردوں کی موجودگی کے بارے میں کوئی تردید نہیں کی اور نہ ہی انہیں ان آپریشنز کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات ہیں۔

عمر خالد خراسانی پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند میں جبکہ فضل اللہ سوات کے مقامی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور شدت پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ عمر نارے اور قاری سیف اللہ کا تعلق ٹی ٹی پی طارق گیڈر گروپ (گیدار گروپ) سے ہے اور دونوں دہشت گرد کمانڈرز پشاور اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں سے شدت پسند کارروائیاں کرتے تھے۔

عمر نارے فوجی آپریشن کے بعد افغانستان فرار گیا تھا، وہ ستمبر 2015 میں پشاور میں ایئر فورس بیس پر حملے میں ملوث تھا، جس میں 29 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ 2015 میں چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے میں بھی عمر نارے کا ہی ہاتھ تھا،جس کے دوران اسٹاف ممبرز سمیت 18 طالب علم ہلاک ہوئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button