مشرق وسطی

داعش کے مقابلے میں قدس بریگیڈ کی کارکردگی پر ایک نظر

عراق اور شام میں داعش کے ظاہر ہونے کے برسوں میں عرب اور مغربی حکومتیں نہ صرف یہ داعش سے مقابلے کے لئے نام نہاد اتحاد کی تشکیل میں مشغول تھے، جنرل سلیمانی کی قیادت میں ایران کی سپاہ پاسداران کی قدس بریگیڈ نے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر داعش کے خطروں کو درک کرتے ہوئے بغداد اور دمشق کی جانب اس گروہ کی پیشرفت کو روک دیا۔ قدس بریگیڈ نے بغیر تاخیر کے بغداد اور دمشق پر قبضے کے داعش کے خواب کو ایک ہی لمجے میں چکناچور دیا اور اس خطرناک گروہ سے جنگ کے میدان میں مشغول ہوگئی۔
حالیہ برسوں میں داعش کے مقابلے میں قدس بریگیڈ نے اتنی زیادہ کامیابی حال کہ بہت جلد ہی یہ فوج، علاقائی میدان میں دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف کاروائی میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس لحاظ سے یہ فوجی دستہ علاقائی سطح پر کافی شہرت حاصل کر گیا۔ گرچہ صیہونی حکومت سے وابستہ مغربی اور عرب میڈیا نے اس جنگ پر سوالیہ نشان لگانے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس فوجی دستے کے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کردار نے اہم کامیابیاں حاصل کیں کہ اس طرح سے نہ صرف یہ علاقائی رای عامہ میں نہیں بلکہ علاقے اور بین الاقوامی پر بہت سی طاقتوں نے داعش کی ناکامی میں قدس بریگیڈ کی اہمیت کا لوہا مان لیا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری نے حال ہی میں اپنے بیان میں عراق میں داعش کے مقابلے میں قدس بريگیڈ کے مثبت کردار کی جانب اشارہ کیا۔ دوسری جانب سبھی کو پتا ہے کہ قدس بريگیڈ نے عراق میں الحشد الشعبی، شام میں رضاکار فورس اور یمن میں انصار اللہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے جو موجودہ وقت میں مقبوضہ علاقوں کی آزادی میں اپنے ملک کی فوج کی اصل طاقت تصور کی جاتی ہے۔ در اصل امریکا کی قیادت میں بنے داعش مخالف اتحاد سمیت دہشت گردی سے مقابلہ کرنے والے تمام دعویداروں کی بہ نسبت عراق اور شام میں قدس بريگیڈ نے نہ صرف اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اس فوجی دستے نے علاقے میں مزاحمت کے مرکز کی تقویت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اس نے علاقے کی رای عامہ میں دہشت گردی کی سرکوبی میں امریکا کے ہیرو بننے کو خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ اس سب کے باوجود جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ عراق اور شام میں قدس بریگیڈ نے داعش کے مقابل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ در حقیقت یہ داعش کے حامیوں اور ایران کے اثر و رسوخ کے بڑھنے کے مخالفین کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ ان لوگوں نے امریکا اور سعودی عرب کی قیادت میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش کی تاہم اس میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے۔
داعش کے مقابلے میں قدس بریگیڈ کی ترجیحات کو مندرجہ ذیل امور میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
پہلی ترجیح : دہشت گرد گروہوں سے فکری، نظریاتی اور فوجی لحاظ سے مقابلہ کرنا ہے کیونکہ یہ گروہ مزاحمت کے مرکز کے لئے سنگین خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
دوسری ترجیح : سب سے پہلے عراق اور شام کی تمام سرزمینوں کا دفاع اور اسی طرح شیعوں کے مقدس مقامات کی حفاظت۔
تیسری ترجیح : عراق اور شام میں ان تمام گروہوں اور دھڑوں کی حمایت کرنا جو داعش کے مقابلے کے لئے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ حمایت عراق اور شام میں کردوں کی حمایت سے لے کر سنی قبائلی لشکر اور الحشد الشعبی کی حمایت تک ہے۔ یہ حمایت مشاورین کی حد تک ہے۔
چوتھی ترجیح : عراق کی جھڑپوں کو ایران کی سرزمین تک پھیلنے سے روکنے کے لئے ملک کی تمام فوجی یونیٹوں سے ہماہنگی۔
پانچویں ترجیح : سعودی عرب اور صیہونی حکومت کی سربراہی میں علاقے میں تکفیری وہابی نظریات کے رائج ہونے سے روکنے کے لئے میڈیا سے بھرپور فائدہ اٹھانا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button