Uncategorized

مدینہ منورہ میں ہونیوالی بدامنی کے پیچھے امریکی لابی ہے، اعجاز ہاشمی

شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ )جمعیت علما پاکستان کے مرکزی صدر پیر اعجاز احمد ہاشمی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز بلند کریں۔ انڈیا سے مذاکرات صرف کشمیر پر کئے جائیں، اگر ہندو بنیا نہیں مانتا تو اس کیساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے نیا لائحہ عمل تیار کیا جائے، اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کیساتھ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔

زرائع کے مطابق لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں جمیعت علماءپاکستان کے مرکزی صدر پیر اعجاز ہاشمی نے افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ، او آئی سی، گلف کونسل، 34 ممالک کے اتحاد اور عرب لیگ میں سے کسی نے بھی کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کیخلاف آواز بلند نہیں کی، جو کہ بے حسی کی انتہا ہے۔ بھارت اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ ملک بن چکا ہے، جہاں صرف مسلمان اور مسیحی ہی نہیں، دلت اور دیگر ہندو اقوام بھی برہمنوں کے تعصبات کا شکار ہیں، جنہیں اپنے سوا کوئی انسان نظر نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد سے دنیا میں بدامنی میں شدت پیدا ہوئی ہے، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے امن کے نام پر دہشتگردی کو جنم دیا، آج عراق، شام، یمن، بحرین، لیبیا، افغانستان اور حتیٰ کہ مدینہ منورہ میں ہونیوالی بدامنی کے پیچھے امریکی لابی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدامنی کو دہشتگردی سے نہیں روکا جا سکتا، انسانی حقوق کی نام نہاد عالمی تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

پیر اعجاز ہاشمی نے کہا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنا ہوگی، کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم لے کر بھارتی فوج کے سامنے پاکستان سے الفت و محبت کا اظہار کرتا ہے اور نعرہ لگاتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کا ہے،تو ہم کیوں خاموش ہیں اور نعرہ نہیں لگاتے کہ کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کشمیر آتش فشاں بن چکا ہے، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، عالمی ادارے ہوش کے ناخن لیں، 7 لاکھ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں سے خائف ہے، کیونکہ ان میں جذبہ شہادت اور آزادی کی تڑپ موجود ہے، اب پاکستانی حکومت اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر پر اپنا کردار ادا کریں، اقوام متحدہ اور مسلم ممالک کے پلیٹ فارم او آئی سی کو آئی سی یو سے باہر آنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button