شام میں تین لاکھ ساٹھ ہزار غیرملکی دہشت گردوں کی موجودگی کا انکشاف
اردن سے شایع ہونے والے اخبار” الغد” نے شاہ اردن کی جانب سے داعشیوں کو دی جانے والی سپورٹ کی طرف کسی قسم کا اشارہ کئے بغیر ایک جرمن تحقیقاتی ادارے کے حوالے سے لکھا ہے کہ شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں میں شامل تین ہزار نو سو افراد کا تعلق اردن سے ہے کہ جن میں سے ایک ہزار نو سو افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ دو سو پچیس افراد لا پتہ ہیں۔
شام میں مارے جانے والے دہشت گردوں میں سب سے زیادہ تعداد سعودی باشندوں کی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق شام میں پانچ برسوں کے دوران مارے جانے والے سعودی باشندوں کی تعدا چوبیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد بلاواسطہ طور پر شام کی حکومت کے خلاف مسلحانہ کاروائیوں میں شریک ہیں۔ ان افراد میں وہ خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو سعودی مفتیوں کے جھانسے میں آکر جہاد نکاح کی خاطر دہشت گردوں کے شانہ بشانہ نام نہاد جہادی کاروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کم ازکم نوّے ہزار غیرملکی دہشت گرد داعش اور جھبتہ النصرہ میں شامل ہیں۔ ان افراد میں اکیس ہزار پانچ سو کا تعلق امریکا اور یورپ سے ہے جن میں سے آٹھ ہزار دہشت گرد اپنے ملکوں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔
درایں اثنا اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شام میں صدر بشار اسد کی دشمنی کے نتیجے میں ترکی کے تین سو پچاس فوجی، سیکورٹی اہلکار اور جنگی پائلٹ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں کے تحت دہشت گردوں کے حامی ممالک اب تک پینتالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرچکے ہیں۔