مضامین

رجب طیب اردگان کا مستقبل

تحریر: سعداللہ زارعی

اگرچہ ترکی میں انجام پانے والی ناکام فوجی بغاوت کو چند ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن ترکی کی سیاسی صورتحال اب بھی سیاسی حلقوں اور میڈیا میں موضوع سخن بنا ہوئی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جس فوجی بغاوت کا اگلی صبح 4 بجے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا، اس کے نتائج اور اثرات اب تک ترکی میں قابل مشاہدہ ہیں۔ اس بارے میں چند اہم نکتے درج ذیل ہیں:
1۔ ترکی میں رونما ہونے والی فوجی بغاوت میں دونوں مدمقابل قوتیں ایک حد تک طاقتور تھیں۔ فوجی بغاوت میں شامل عناصر اگرچہ اپنے منصوبے کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے، لیکن ترک معاشرے میں ان کی بدستور موجودگی اور اثرورسوخ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ترک آرمی جو نیٹو میں چوتھی طاقت تصور کی جاتی ہے اور تین لاکھ افراد پر مشتمل ہے، ماضی کی طرح ترکی کے ایک طاقتور ادارے کے طور پر باقی رہے گی۔ ترک فوج ناکام فوجی بغاوت کے بعد کچھ حد تک کمزور ضرور ہوئی ہے اور رجب طیب اردگان کی جانب سے فوج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اس کے چہرے کو تبدیل کرچکی ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسا دکھائی دیتا ہے کہ رجب طیب اردگان تین لاکھ افراد پر مشتمل اس عظیم فوج میں کوئی بنیادی تبدیلی لانے پر قادر نہیں ہوں گے۔ لہذا کچھ عرصے بعد ترک فوج بغاوت کے نتیجے میں ہونے والے توہین آمیز اقدامات کے اثرات سے باہر نکل کر نارمل حالت میں واپس آجائے گی اور شہروں سے لے کر سرحدی حدود تک بھرپور فعالیت شروع کر دے گی۔ دوسری طرف نیٹو سے ترک فوج کے تعلقات اور بین الاقوامی سرگرمیوں میں مصروف انجرلیک فوجی ہوائی اڈے کی کمان سنبھالنے کے باعث ترکی کی مسلح افواج رجب طیب اردگان اور ان کی حکومت سے اپنا فاصلہ برقرار رکھیں گی۔

ترکی میں ہوئی ناکام فوجی بغاوت کا دوسرا پہلو "فتح اللہ گولن” سے متعلق ہے۔ فتح اللہ گولن مغربی طرز کے اسلام کے نمائندہ لیڈر سمجھے جاتے ہیں، جبکہ ترکی کے مذہبی اور انقلابی حلقوں میں انہیں کوئی خاص مقبولیت بھی حاصل نہیں۔ لیکن ترکی میں بڑی تعداد میں تعلیمی، صحت اور فلاح و بہبود کے مراکز کا مالک ہونے کے ناطے ترک معاشرے میں ان کا اچھا خاصہ اثرورسوخ پایا جاتا ہے۔ لہذا فوجی بغاوت کی ناکامی اور ترکی کی عدلیہ، فوج اور حکومتی اداروں سے بڑی تعداد میں اپنے حامی نکال باہر کئے جانے کے باوجود ترکی کے سماجی امور میں فتح اللہ گولن کا اثرورسوخ باقی رہے گا۔ فتح اللہ گولن ایک طرح کے روشن خیال عرفان کا پرچار کرتے ہیں، جس کا اسلامی تعلیمات سے زیادہ تناسب نہیں پایا جاتا۔ وہ ایک ایسی شریعت کا پرچار کرتے ہیں، جس میں اسلامی احکام کی پابندی ضروری نہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق کسی شخص کا شرعی وظیفہ خود اس کے تصورات پر مبنی ہوتا ہے۔ بالکل ایسا ہی طرز تفکر ایران میں بھی پایا جاتا ہے، جسے "آسان شریعت” کا نام دیا جاتا ہے اور ڈاکٹر عبدالکریم سروش اس کے بڑے پرچار کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ فتح اللہ گولن کے اس طرز تفکر کے باعث امریکی جاسوسی ایجنسی سی آئی اے ان کی حمایت کرتی ہے اور ان کے طرز تفکر کو اسلامی دنیا اور امریکہ کے درمیان موجود ٹکراو کا مناسب راہ حل قرار دیتی ہے۔ فروری 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکہ فتح اللہ گولن کے طرز تفکر کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے طرز تفکر سے مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ لہذا مغربی حمایت اور ترک معاشرے میں سماجی و اجتماعی سرگرمیوں کے باعث فتح اللہ گولن کی ٹیم اور ان کے حامی ترک معاشرے میں موجود رہیں گے اور انہیں ترکی کے سیاسی میدان سے مکمل طور پر نکال باہر کرنا ممکن نہ ہوگا۔ مستقبل میں ترک آرمی اور فتح اللہ گولن کا ترک معاشرے میں اثرورسوخ رجب طیب اردگان کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔

2۔ مغربی طاقتیں بعض وجوہات کی بنا پر رجب طیب اردگان اور ان کی پالیسیوں کو پسند نہیں کرتیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کسی طاقتور اسلامی ملک یا ایسی قوم کو برداشت نہیں کرسکتے، جہاں پوری قوم اور عوام ایک شخص کے گرد متحد نظر آئیں۔ لہذا اگرچہ رجب طیب اردگان نے گذشتہ 14 برس میں مغربی ممالک اور اسرائیل کے مفاد میں بہت سے اقدامات انجام دیئے ہیں، لیکن اس کے باوجود امریکہ اور اسرائیل ترکی میں رجب طیب اردگان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو اپنی طولانی مدت پالیسیوں کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں ایران کے خلاف اپنی وسیع اقتصادی پابندیوں کی ناکامی اور ان کے بے اثر ہونے میں ترکی کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جس زمانے میں ایران کے خلاف مغربی پابندیاں روز بروز زیادہ شدید ہوتی جا رہی تھیں، ترکی کی ایران سے متعلق پالیسی مغربی پالیسیوں سے زیادہ ہم آہنگ نہیں تھی۔ البتہ ترکی کا یہ طرز عمل زیادہ تر ملک میں موجود اقتصادی مشکلات اور موقع سے فائدہ اٹھانے کی خاطر تھا، لہذا رجب طیب اردگان کی تاجرانہ سوچ نے جہاں تک ہوسکا مغربی پابندیوں کی خلاف ورزی کی اور ایران سے تجارت میں بڑے پیمانے پر سود کمایا۔ اگر مغرب کو درپیش شدید اقتصادی بحران کے چند سالوں میں ترکی اور یورپی یونین کی اقتصادی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ترکی کی معاشی صورتحال اٹلی، یونان اور اسپین جیسے ممالک سے بہت بہتر رہی ہے اور اگرچہ ترکی کی معیشت یورپی معیشت سے بہت زیادہ مربوط تھی، لیکن اس نے بہت آسانی سے اور کم اخراجات کے ساتھ اس بحران سے عبور کیا ہے۔

اس دوران یعنی 2004ء سے 2011ء تک رجب طیب اردگان نے ہمسایہ ممالک سے تناو ختم کرنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی۔ لہذا ایران، روس اور ان کے اتحادی ممالک سے تجارت کے ذریعے بہت سود کمایا۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی سیاحت سے حاصل آمدن کا 37 فیصد حصہ روسی سیاحوں سے حاصل ہوتا ہے، جبکہ ایران سے آنے والی گیس اور پیٹروکیمیکل مصنوعات ترکی کے راستے دیگر ممالک منتقل ہونے والی برآمدات کا 50 فیصد حصہ تشکیل دیتی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک اردگان حکومت کے ایسے اقتصادی اقدامات کو برداشت نہیں کرتے، جن کا فائدہ ایران اور روس کو ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے مغربی حکام رجب طیب اردگان کو پسند نہیں کرتے۔ لہذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی اور رجب طیب اردگان کی جانب سے فوری اقدامات کے باوجود مغربی طاقتیں رجب طیب اردگان اور ان کی پارٹی کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ چند دنوں میں رجب طیب اردگان نے مغربی حکام کی دلجوئی کی خاطر اہم اقدامات انجام دیئے ہیں اور اسی وجہ سے ترک وزیراعظم نے ناکام فوجی بغاوت سے قبل شام سے اپنے تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن انہوں نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایک بار پھر شام میں صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی پر زور دیا۔ گرفتار ہونے والے فوجی افسران میں سے بعض کی آزادی اور رجب طیب اردگان کی جانب سے مغربی حکام پر تنقید میں کمی بھی اسی مقصد کے حصول کیلئے انجام پائی ہے۔ اگرچہ ترکی کے اندر رجب طیب اردگان کے سیاسی حریف کمزور ہونے کے باعث ان کی پوزیشن کچھ حد تک مضبوط ہوئی ہے، لیکن دوسری طرف ناکام فوجی بغاوت کے پس پردہ عوامل اب رجب طیب اردگان کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے سرگرم ہوچکے ہیں۔

3۔ کہا جا رہا ہے کہ ترکی میں اس وقت جو تبدیلیاں رجب طیب اردگان کی جانب سے انجام پا رہی ہیں، وہ ہمیشہ ان کے ہاتھ میں نہیں رہیں گی۔ ان دنوں رجب طیب اردگان کی شخصیت اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ جب فوجی بغاوت کو ناکام بنانے میں عبداللہ گل اور داوود احمد اوگلو کے موثر کردار کے بارے میں بات کی گئی تو رجب طیب اردگان نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: بغاوت کو ناکام بنانے والا صرف خدا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رجب طیب اردگان نے جو سیاست پہلے سے اختیار کر رکھی تھی اور خود عدالت و ترقی پارٹی کے اندر سے بھی اس پر کافی تنقید کی جا رہی تھی، بغاوت کے بعد نہ صرف تبدیل نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید شدت آئی ہے۔ یہ امر رجب طیب اردگان کو بہت جلد انتہائی شدید مشکلات کا شکار کر دے گا۔ رجب طیب اردگان بغاوت کے بعد صدمے سے دوچار موجودہ فوج کے ذریعے کرد علیحدگی پسندوں سے موثر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے، جس کے نتیجے میں کرد علاقوں میں ترک حکومت کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ دوسری طرف سیاسی میدان میں بھی رجب طیب اردگان کے اشتعال انگیز اقدامات ان کے سیاسی حریفوں میں حسد کی آگ شعلہ ور کر دیں گے اور وہ رجب طیب اردگان کی سیاسی مخالفت شدید کر دیں گے۔ اس وقت بھی مخالف پارٹیوں کی جانب سے رجب طیب اردگان کے خلاف سیاسی اقدامات شروع کئے جانے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اندرونی سطح پر رجب طیب اردگان کیلئے پہلے سے بہتر فضا میسر ہوگی، لیکن سکیورٹی امور اور حریف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انہیں نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

4۔ رجب طیب اردگان کو چاہئے کہ وہ یورپ اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے دباو نیز اندرونی سطح پر سکیورٹی خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ایران کی مدد حاصل کریں۔ ایران ایک مستحکم اور طاقتور ملک ہونے کے ناطے ترکی کو درپیش چیلنجز اور بحرانوں پر قابو پانے میں مدد دے سکتا ہے۔ لیکن رجب طیب اردگان کی شخصیت اور اخوانی طرز تفکر کی روشنی میں اس بات کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود رجب طیب اردگان اور ترک حکومت تہران سے تعلقات میں مزید بہتری لانے کی کوشش ضرور کرے گی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ترکی ایران سے "اسٹریٹجک تعلقات” استوار کرنے کی بجائے ایران سے تعلقات کو امریکہ، یورپ اور سعودی عرب کی جانب سے درپیش دباو دور کرنے کیلئے ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button