سعودی وزیر دفاع کا اچانک دورہ پاکستان اور مشرق وسطی کی بدلتی صورتحال
تحریر: نادر بلوچ
مشرق وسطٰی کی اچانک ڈرامائی صورتحال اس وقت تبدیل ہوئی جب ترک فوج کے ایک دھڑے نے بغاوت کر دی، ترک عوام نے اپنی قیادت کا ساتھ دیتے ہوئے فوجی بغاوت کو کچل ڈالا، جس پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ ترکی نے ناکام بغاوت کے بعد اپنی خارجہ پالیسی میں ایسی ہنگامی تبدیلیاں کیں، جس نے مغرب اور خطے کے کئی ممالک کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ ترک صدر اردوگان اچانک ماسکو پہنچے اور روسی ہم منصب سے ملاقات کرکے تلخی کو کم کرنے کیلئے جہاں بات کی، وہیں شام کے مسئلے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ترک صدر کے اچانک دورہ روس پر ماہرین ابھی تبصرے کر ہی رہے تھے کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بھی استنبول جا پہنچے اور ترک قیادت سے ملاقات کرکے اپنے ملک کی جانب سے فوجی بغاوت کے خلاف اپنی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ جواد ظریف نے ایوان صدر میں ہونے والی نماز جمعہ میں بھی شرکت کی۔ اس موقع پر ترک ہم منصب نے ان کا والہانہ تعارف کرایا۔ اس کے ساتھ ہی ترک صدر کی جانب سے جلد دورہ تہران کرنے کا اعلان بھی سامنے آیا۔
اس بدلتی ہوئی صورتحال میں روس، ایران، ترکی، چائنہ اور عراق ایک نئے بلاک کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد ریاض اور واشنگٹن کے ترکی کے ساتھ تعلقات میں تناو سامنے آیا ہے تو وہیں سعودی عرب خطے میں تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سعودی عرب کی خواہش تھی کہ وہ شام اور یمن میں اپنی بغل بچہ حکومتیں قائم کرے، یہی وجہ بنی کہ ریاض نے ترکی کے ساتھ ملکر داعش کو سپورٹ کیا اور شام کی خانہ جنگی کو ہوا دی۔ آج پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی اسد رجیم اپنی جگہ پر مستحکم ہے، دنیا کی ساری طاقتیں ملکر ایڑی چوٹی کا زور لگا چکی ہیں، لیکن اسد حکومت کو نہ جھکایا جاسکا، ایسے میں ترکی کا ریاض سے دور ہونا ثابت کرتا ہے کہ سعودی عرب اب تنہا ہو رہا ہے، سعودی عرب نے یمن پر براہ راست دس ملکوں کو ساتھ ملکر جارحیت کی، لیکن آج ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد بھی یمن میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی، تمام تر فضائی کارروائیوں کے باوجود یمنی عوام کے حوصلوں کو شکست نہ دی جاسکی، صنعا میں گذشتہ ہفتے کا 10 لاکھ کا اجتماع ثابت کرتا ہے کہ یمنیوں کے ارادے مصمم ہیں، جس دن لاکھوں کی تعداد میں یمنی سڑکوں پر تھے، اس روز بھی تقریباً 80 سے فضائی حملے کئے گئے، لیکن عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر واضح کر رہا تھا کہ انہیں طاقت کے ذریعے نہیں کچلا جاسکتا۔ دوسری جانب انصار اللہ کے جنگجو اب سعودی علاقوں میں مزائل داغ رہے ہیں، جو اپنے نشانوں پر فٹ بیٹھ رہے۔ ادھر خبر گرم ہے کہ مصر بھی پیچھے ہٹ رہا ہے۔
سچ یہ ہے کہ تنہائی سے نکلنے اور دنیا کو باور کرانے کیلئے سعودی عرب نے 34 ملکوں کے اتحاد کا ڈرامہ رچایا، لیکن وہ بھی فلاپ ہوگیا، ریاض میں ہونے والی پریس کانفرنس میں سعودی عرب نے اپنے اعلان کردہ اتحاد میں کئی ایسے ملکوں کے جھنڈے بھی شامل کئے، جن کو بعد میں علم ہوا کہ وہ بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں، پاکستان اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس اتحاد کا نام سنی اتحاد رکھا گیا، جس سے مسلکی تاثر نے زور پکڑا۔ 34 ممالک پر مبنی یہ اتحاد کس کے خلاف جنگ لڑے گا اور اس کا ٹارگٹ کیا ہوگا، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی کوشش تھی کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ایران اعراب تنازعے میں بدل دے، اس اتحاد کا اہم مقصد بھی یہی تھا۔ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ اب کھل کھلم سفارتی تعقات اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ یمن اور شام کے عملی میدان میں سعودی عرب کو مکمل طور پر ناکامی کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کی کوشش تھی کہ وہ ریالوں اور ڈالروں کے بل بوتے پر خطے میں اپنی حکومتیں قائم کرلے گا، لیکن پانچ برس گزرنے کے بعد بھی یہ کام نہ ہوسکا، کیونکہ زمین پر ریال اور ڈالر نہیں بلکہ عزم، ارادہ اور حوصلہ لڑتا ہے، جو کرائے کی فوج میں کہاں ہوتا ہے۔ یہی وجہ بنی ہے کہ یمن اور شام میں سعودی عرب اپنے مقصاد حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہے۔
سعودی عرب کو باور ہوچکا ہے کہ خطے میں گیم کی کایا پلٹ رہی ہے، روس، ایران، چین، ترکی، عراق ایک بلاک کی شکل میں سامنے آگئے ہیں، حتٰی پاکستان بھی اس نئے بلاک کا غیر محسوس انداز میں حصہ بن گیا ہے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود کا حالیہ دورہ روس اس امر کی نشانی ہے، جنرل راشد محمود کا ماسکو میں روسی فوجی قیادت سے خطاب اور عزم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان خطے سے امریکہ کے نقش اور رول کا خاتمہ چاہتا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال، ملا اختر پر ڈورن حملہ اور مقبوضہ کشمیر کے حالات نے پاکستان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ 34 رکنی ممالک میں سے کسی ایک نے بھی کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ دوسری جانب سعودی وزیر دفاع کا اچانک دور پاکستان نے بھی بہت سارے سوالات کو کھڑا کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی وزیر دفاع خصوصی پیغام لیکر پاکستانی شریفین کے پاس آیا تھا کہ پاکستان نئے بلاک کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ نئی بدلتی صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اس وقت کڑے وقت میں ہے، ریاض کی نئی قیادت اپنے لئے تمام راستے خود ہی مخدوش کرتی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اور مغرب کی غلط پالیسیوں نے اس خطے کو لہو لہو کیا، تاہم اب مشرق وسطٰی کے تازہ واقعات اور حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے
حواریوں کو ناکامی کا سامنا کرنے پڑے گا۔