مضامین

مشی اربعین۔۔ پا پیادہ سفر عشق

تحریر: سید اسد عباس

جدید ذرائع رسل و رسائل کی ایجاد سے قبل انسانوں کا زیادہ سفر باربرداری کے جانوروں پر ہوتا تھا۔ اس مقصد کے لئے گھوڑا، اونٹ، خچر، گدھا اور ہاتھی کا استعمال عام تھا۔ جن حضرات کو یہ سواریاں میسر نہ ہوتی تھیں، وہ دور دراز علاقوں کے سفر پا پیادہ کیا کرتے تھے۔ جزیرہ عرب میں دین اسلام کے ظہور کے بعد ایک نئی ثقافت نے جنم لیا۔ اس ثقافت کے پس منظر میں وہ روایات تھیں، جن میں پا پیادہ حج کی فضیلت کو بیان کیا گیا تھا۔ ان روایات کے سبب بہت سے افراد نے پا پیادہ حج کا آغاز کیا۔ پا پیادہ حج کا سلسلہ گذشتہ چند سو سال تک جاری رہا بلکہ اب بھی بعض ملکوں کے شہری پا پیادہ حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں، اگرچہ ان افراد کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ہزاروں میل کا سفر پا پیادہ کرنا یقیناً جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے لئے خاصا وقت درکار ہے اور پھر ذرائع رسل و رسائل کی دستیابی کے بعد یہ کام کچھ غیر منظقی سا محسوس ہوتا ہے، مگر اب بھی کچھ دیوانے ایسے ہیں جو یہ غیر منطقی کام کرتے ہیں، ان کی نیت اور مشقت کا ثواب یقیناً رب کائنات کے ہاں ہی ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس کو بیت اللہ کی جانب پا پیادہ سفر کی حسرت تھی، کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول خدا (ص) کو کہتے سنا کہ پا پیادہ حج کرنے والے کے اعمال کا ثواب ستر ہزار گنا زیادہ ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کوئی عبادت خاموشی اور اللہ کے گھر کی جانب پیادہ روی سے افضل نہیں ہے۔ الخصال ج 1 ص 35
آئمہ اہل بیت اور اصحاب رسول حج بیت اللہ کے لئے اکثر پا پیادہ جایا کرتے۔ حضرت امام حسن علیہ السلام نے بیس حج پا پیادہ کئے جبکہ سواری موجود ہوتی تھی۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام اور باقی آئمہ نے بھی متعدد پاپیادہ حج کئے۔ روایات معصومین میں حج بیت اللہ کے بعد جس زیارت کی بہت زیادہ تاکید کی گئی، وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا سفر ہے۔ اس مورد میں بے پناہ روایات موجود ہیں، حتٰی کہ مختلف عیدوں اور اہم ایام کے موقع پر زیارت امام حسین علیہ السلام کی تلقین کی گئی ہے۔ وہ لوگ جو اس زیارت کے لئے حرم امام تک پہنچ پائیں، وہ ضرور پہنچیں، لیکن جو لوگ ایسا نہ کر پائیں، وہ اپنے محل سکونت سے قبر حسین علیہ السلام کی جانب اشارہ کریں اور زیارت امام حسین تلاوت کریں۔ اس تاکید سے اندازہ ہوتا ہے کہ زیارت امام حسین علیہ السلام کا عمل کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور غم منانے کے علاوہ کسی دوسرے امام کے بارے میں اس قدر تاکید نہیں کی گئی۔

اس تاکید کا ہی اثر ہے کہ آج لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسان حرم امام حسین علیہ السلام کی جانب عازم سفر ہیں۔ حج بیت اللہ میں پیادہ روی کی روایت سے استفادہ کرتے ہوئے اب امام حسین علیہ السلام کے زائرین بھی پا پیادہ یہ سفر کرتے ہیں۔ عراق میں اسی عمل کو ’’مشی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، جس کا آغاز عراق بھر سے اربعین کے موقع پر ہوتا ہے۔ عراق کے دور دراز شہروں، دیہاتوں، قصبوں سے لوگ پیدل زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں، سینکڑوں کلومیٹر کا سفر عشق کے زور پر انجام پاتا ہے، ورنہ جو لوگ یہ سفر کر رہے ہوتے ہیں، ان کی حالت کو دیکھا جائے تو انسان یقین نہیں کرسکتا کہ یہ افراد دس کلومیٹر بھی پیدل چل پائیں گے۔ بزرگ، معذور، بچے، خواتین اور جوان اربعین حسینی کے لئے حرم امام کی جانب رواں دواں ہیں۔ مشی کی اس روایت نے عالم اسلام میں ایک منفرد روایت کو جنم دیا ہے۔ حرم امام حسین علیہ السلام کی جانب آنے والی ہر شاہراہ مشی کرنے والے زائرین کی خدمت اور عزاداری کا مرکز بن چکی ہے۔ ان زائرین کو سہولیات مہیا کرنے کے لئے عراق کے مقامی شہری تن من دھن کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں، تاکہ زائرین امام علیہ السلام کو زیادہ سے زیادہ سہولت مہیا کریں اور زیارت کے اس ثواب میں حصہ دار بنیں۔

اربعین حسینی کا یہ اجتماع جو آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہے، دنیا کے عظیم ترین اجتماعات میں سے ایک ہے۔ عراقی شہریوں کی خدمت اپنی جگہ مگر سفری صعوبتیں، دہشت گردی کے خطرات بدستور رہتے ہیں۔ ہر سال اربعین کی مشی کے دوران دسیوں زائرین دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ زائرین کو معلوم ہے کہ اس سفر میں ان کی جان جانے کے قوی امکانات موجود ہیں، کسی وقت بھی کوئی دشمن، تکفیری حملہ آور ہوسکتا ہے، یعنی یہ سفر قطعاً بھی پرامن سفر نہیں ہے، اس کے باوجود کروڑوں انسان اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر عازم سفر ہیں۔ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ انسان کے لئے عزیز ترین متاع اس کی زندگی ہی ہے، لیکن حسین ابن علی علیہ السلام تاریخ انسانیت کا وہ عظیم باب ہیں، جن کا عشق انسان کو اس کی عزیز ترین متاع سے بے بہرہ کر دیتا ہے۔ لوگ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ایک سلام کرنے ان کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔ جو جاتا ہے وہ عجیب کیفیت سے گزرتا ہے اور جو نہیں جا پاتا اس کی حالت بھی دیدنی ہوتی ہے۔ ان تمام کیفیات کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ سفر ہی انسان کی کل کائنات ہے۔ ہر قسم کی مشکل خواہ بدنی ہو یا مالی، خانوادگی ہو یا کاروباری، اس آرزو کے سامنے بہت کم تر نظر آتی ہے۔ وسائل کی عدم دستیابی اس سفر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ بس بلاوا آجائے، انسان کے وجود میں زیار
ت کی تڑپ پیدا ہو جائے، فقیر ترین انسان اس ایک سلام کی غرض سے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ کربلا میں اربعین کے موقع پر جمع ہونے والے ان کروڑوں انسانوں کو واپس ایک ایک انسان پر لے آئیں۔ یہ وہ کروڑوں انسان ہیں، جن میں سے ہر ایک کو حسین (ع) کی محبت نے پکارا ہے۔ ہر انسان اپنی مشکلات کو پس پشت ڈال کر عازم سفر ہوا ہے۔ ہر شخص نے ہر قسم کی صعوبت کو برداشت کیا ہے، موت کے خوف سے جنگ کی ہے، پردیس کے غم کو جھیلا ہے، اپنی آرام دہ زندگی کو ترک کیا ہے کہ وہ آکر محمد مصطفٰی (ص) کے فرزند کو نذرانہ عقیدت پیش کرسکے۔ یہ مشی اربعین کوئی عام مشی نہیں ہے، یہ مادیت سے روحانیت کی جانب سفر ہے۔ یہ سفر حج کی مانند ایک بدنی و روحانی مشق ہے، جس مشق کا اہم ترین درس عشق حسین (ع) ہے۔ عشق حسین (ع) یعنی حسین (ع) کی اطاعت، حسین (ع) کی اطاعت یعنی خدا اور اس کے پاک رسول (ص) کی اطاعت، اسلام کی سربلندی، یزیدیت کا انکار، اس کے خلاف میدان جنگ میں حاضری، ہر قربانی کے لئے خود کو آمادہ کرنا، اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کرنے کا درس۔ خداوند کریم ہم سب کو اس عظیم سفر کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button