مضامین

دہشتگرد بے لگام، امام حسین (ع) کے زائرین تفتان اور کوئٹہ میں نظربند

تحریر: ایس ایم شاہ

امام حسینؑ کو ہندو مسلمان سب مانتے ہیں۔ امام عالی مقام سے اپنی عقیدت کا اظہار بھی سب کرتے ہیں۔ پاکستان تو اسلام کے نام پر ہی معرض وجود میں آیا۔ مذہبی آزادی نے یہاں کے آئین میں جگہ پائی۔ اس  مملکت خداداد کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح بھی شیعہ ہی تھے۔ لہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں کے اہل تشیع کو باقی مسالک سے بھی زیادہ مذہبی آزادی حاسل ہوتی۔ تب جمہوریت کا حق بھی ادا ہوتا اور بانی پاکستان کی روح بھی خوشنود ہو جاتی۔ لیکن معاملہ اس کا بالکل برعکس ہوا۔ بالخصوص آخری چند سالوں سے تو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت باہر کے پیسوں پر پلنے والے چند مذہبی شدت پسند حکومتی ایوانوں میں براجمان ہوکر اس ملک میں  یہاں کے اہل تشیع کے لئے دن بہ دن جگہ تنگ کر رہے ہیں۔ پاکستان بننے کی مخالفت کرنے والے آج ہمارے ملک میں راج کر رہے ہیں جبکہ پاکستان بنانے اور بچانے والے آج سخت کرب میں مبتلا ہیں۔  ادھر ملک کے اندر سرزمین اہل بیت گلگت بلتستان میں "قراقرم یونیورسٹی” میں یوم الحسین  منانے کے جرم میں سینکڑوں بے گناہ طالب علم پابند سلاسل ہیں تو دوسری طرف کثیر تعداد میں لوگ اس پابندی اور ان طالب علموں کے حق میں سخت سردی میں بھی کئی دنوں سے  پرامن دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، لیکن ایوان اقتدار پر براجماں حکمران اطمینان قلب کے ساتھ سعودی شہزادوں سے محو گفتگو اور اقتدار کے نشے میں مست بیٹھے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ دوسری طرف امام حسینؑ کے عاشقان کربلا میں امام عالی مقام کے چہلم میں شرکت کا ارمان لئے گھروں سے نکلے، کوئٹہ پہنچتے ہی ان کے یہ ارمان خاک میں ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی زیارات سے شرفیات ہوکر واپس آنے والے اپنے گھروں کو جانے کو ترس رہے ہیں اور ان کے اعزہ و اقارب ان کے استقبال کی آس لئے بیٹھے ہیں۔ ان کو کیا خبر تھی کہ یہاں کی حکومت ان کے عزیزوں کو کئی کئی دن سرزمین بے آب و گیاہ میں محصور کرکے رکھے گی۔ اب وہ سب اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ خدا نہ کرے کہ دہشتگرد اس ریتلے میدان میں کہیں ان کے عزیزوں کو پہلے کی طرح دوبارہ خاک و خون میں نہ نہلا دیں۔ کئی سالوں سے کوئٹہ شہر  اور تفتان سمیت کوئٹہ تفتان روڈ محبین اہل بیت کے لئے مقتل بنا ہوا ہے۔ یہاں کے دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرنے اور ان کا دائرہ تنگ کرنے کی بجائے بے گناہ زائرین کو تنگ کرنا اب ان کا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ سکیورٹی کے بہانے یہاں زائرین کو کئی کئی دن روکے رکھا جاتا ہے۔ نہ تفتان سے واپس جانے والوں کو وہاں سے بروقت واپس آنے دیا جاتا ہے، نہ کوئٹہ کے اندر کوئی امن ہے اور نہ تفتان کے اندر سکون، غریب زائرین چوبیس گھنٹے اس خوف میں ہوتے ہیں کہ خدا نہ کرے کہ یہاں کوئی دشمن حملہ کر دے۔ کیونکہ گذشتہ سالوں میں دہشتگردوں نے تفتان کے ہوٹلوں کے اندر گھس گھس کر بزرگوں، جوانوں، بچوں اور خواتین کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔

کوئٹہ کے اندر حال ہی میں پولیس ٹرینگ سنٹر پر حملہ ہوا، جس سے سینکڑوں کی تعداد میں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ شیعیاں حیدر کرار تو سالہا سال سے یہاں سے جنازے اٹھاتے چلے آرہے ہیں۔ ایسی جگہ پر ان زائرین کو روکے رکھنا، ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے کے مترادف ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ زائرین اور پولیس سنٹر پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں کا دائرہ تنگ کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا خصوصی بندوبست کیا جاتا، ان کے خلاف فوجی آپریشن ہوتا، ان کے نیٹ ورک کو توڑا جاتا، تاکہ وہ آئندہ ایسی گھناونی حرکت کرنے کی جرات ہی نہ کرسکے۔ تب نہ ملک بدنام ہوتا اور نہ ہی یہاں کے باسی اپنے آپکو خطرے میں محسوس کرتے۔ کسی بھی ملک میں جب دہشتگردی ہوتی ہے تو یہی اصول ہے کہ وہاں کی حکومت، انٹلیجینس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سب مل کر اپنی پوری طاقت کے ساتھ دن رات ایک کرکے ان دہشتگردوں کا سراغ لگانے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ شہریوں سے کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ فلان شہر میں نہ رہیں۔ فلاں جگہ کی طرف سفر نہ کریں، بلکہ وہ ان دہشتگردوں کا صفایا کرکے وہاں کی شہریوں کو سکھ کی زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور راستوں کو محفوظ بناتے ہیں۔

ہمارے ہاں تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ افسوس صد افسوس!! وہ دہشتگرد تو آج آزادانہ پھر رہے ہیں، لیکن ہمارے بے گناہ شہریوں کو آئے روز تنگ کیا جاتا ہے۔ نہ ان کے احتجاج کو میڈیا کوریج دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی مشکلات کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ بعض پولیس آفیسر تو بدزبانی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے بلکہ بسا اوقات تو زائرین کو مار پیٹ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی دنوں کے بعد ایک کانوائے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ  وہاں بھی سکیورٹی کے بہانے مسافروں سے خطیر رقم وصول کی جاتی ہے اور اب یہ ایک مافیا کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ نو دس گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے لئے انھیں چوبیس گھنٹے تک سفر جھیلنا پڑتا ہے۔ ورنہ اپنے شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ زائرین سے اس مد میں پیسے وصول کرنا سراسر ظلم ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں زائرین امام حسینؑ اس وقت کوئٹہ اور تفتان میں محصور ہیں۔ نہ ان کے لئے مناسب رہائش فراہم ہے اور نہ ہی مناسب کھانے پینے کا بندوبست، نہ دن کو سکون ہے نہ رات کو چین۔ اب یہ س
لسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ ہم احتجاج کر کرکے تھک گئے لیکن ابھی تک اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ پاک فوج، حکومت وقت اور صوبائی حکومت سے ہم یہ تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدہ لیں اور اس کے لئے کوئی مستقل راہ حل نکالیں۔ تفتان اور کوئٹہ میں پھنسے ہزاروں زائرین کو بروقت زیارت امام حسین کو جانے کے لئے سکیورٹی فراہم کریں، کیونکہ امام حسین ؑ کی محبت کا دم تو  آپ بھی بھرتے ہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button