خدا حافظ! سید وزارت حسین نقوی
خصوصی رپورٹ
آج اطلاع ملی کہ سید وزارت حسین نقوی بھکر میں انتقال فرما گئے۔ ﺍﻧﺎ ﻟﻠﮧ ﻭﺍﻧﺎ ﺍﻟﯿﮧ ﺭﺍﺟﻌﻮﻥ۔ آپ شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے، مرحوم سید وزارت حسین نقوی کا خاندان بھارت سے ہجرت کرکے بھکر میں رہائش پذیر ہوا۔ آپ بنیادی طور پر وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ اس پیشے میں اپ ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ قانونی معاملات کے علاوہ وکلا سیاست میں بھی کافی اثر رکھتے تھے۔ یہ کہا جا سکتا یے کہ اپنے علاقہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ دین داری اور دین کے کاموں میں ہمیشہ پیش قدم رہے۔ بھکر میں شاندار مرکز "قصر زینب (س)” کے نام سے تعمیر کرایا، جو علاقہ کی مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اس کے معاملات کی نگرانی آخر تک کرتے رہے۔ اس میں مسجد، امام بارگاہ، ضریع مبارک اور تنظیموں کے دفاتر بھی قائم رہے ہیں۔ اپنے علاقے کی مذہبی سرگرمیوں اور سیاست میں کام کرتے رہے۔ 1979ء میں ضیاء الحق نے اپنی من پسند طرز کے فقہی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ملک میں سناٹے کا سماں تھا۔ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں خاموشی کی پالیسی پر گامزن تھیں۔ ایسے میں سید وزارت حسین نقوی نے بھکر میں ملک گیر مرکزی شیعہ کنونشن کا اعلان کر دیا۔ اس سے قبل علماء کرام اور زعماء قوم کو اعتماد میں لیا۔ اس کے لئے ملک بھر کا دورہ کیا۔ یہ ایک تاریخی اور ملت کے لئے اہم موڑ ثابت ہوا۔
اس کنونشن کے انتظامات آپ کی مہارت کا ثبوت تھے، جو اس کنونشن میں شریک ہوا وہ انتظامات کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کنونشن نے آپ کو ملک بھر میں متعارف کروا دیا۔ اس کنونشن میں ملت کے لئے ایک پلیٹ فارم "تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ملت کی قیادت کے لئے علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کو چنا گیا۔ اس عمل نے ملت کو ایک تسبیح میں پرو دیا۔ مخالفت کی کمزور سی آواز دب کر رہ گئی۔ 1980ء میں اسلام آباد کنونشن منعقد ہوا، جو ملت کے حقوق کے حصول کا مرحلہ قرار پایا۔ مفتی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم چونکہ مرکزی سینیئر نائب صدر تھے، وہ قائمقام صدر بن گئے۔ لیکن انہوں نے اپنا ایجنڈا طے کر لیا تھا اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ انہوں نے خود بتایا کہ علامہ محمد حسین ڈھکو اور وزارت حسین نقوی ایک ہفتہ ان کے پاس رہے اور انہیں قائل کیا کہ ملی پلیٹ فارم کا احیا ہونا چاہیے۔ ان سے تائید لے کر ملک بھر کا دورہ کیا۔ دستور کے مطابق ہر ضلع میں نمائندے مقرر کئے۔ ان کا اجلاس بھکر میں دس گیارہ فروری 1984ء کو منعقد کیا۔ جس میں علامہ عارف الحسینی شہید کا بطور قائد ملت چناو عمل میں آیا۔
شہید نے آپ کو مرکزی جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ چھ جولائی 1985ء کو جب سانحہ کوئٹہ پیش آیا تو آپ بھکر سے براستہ سڑک کوئٹہ پہنچے، تو آرمی آچکی تھی۔ جیسے ہی آپ شہر میں داخل ہوئے گرفتار کرلئے گئے۔ آپ کو بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ جس کا آپ کی صحت پر برا اثر پڑا۔ شہید عارف الحسینی کے دور میں مرکزی جنرل سیکرٹری ہونے کے باوجود بھی اس طرح کی فعالیت نہ کرسکے۔ مرکزی اجلاسوں میں شرکت کرتے۔ تاہم بعض اوقات غیر حاضر رہتے۔ شہید کے دور میں دیو سماج کا دفتر فعال تھا۔ ان کی کمی پوری ہوتی رہتی۔ شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد سپریم کونسل اور مرکزی کونسل کے اجلاس کنڈکٹ کئے، جس نے نئے سربراہ کا انتخاب کیا۔ علامہ ساجد نقوی نے جب 1988ء میں الیکشن میں حصہ لیا تو آپ نے ان کی حمایت نہ کی، بلکہ پیپلز پارٹی کو مقامی سطح پر سپورٹ کیا۔ الیکشن کے بعد انہوں نے دل کھول کر الیکشن پر تنقید کی۔ آپ سپریم کونسل کے رکن رہے۔ نواز شریف کی حکومت جب ختم ہوئی اور نگران حکومت میں منیر حسین گیلانی مرکز میں وزیر ہوگئے، تو اس پر بھی آپ سخت نالاں تھے اور گلہ کرتے تھے کہ قربانیاں میں نے دیں اور جب اعزاز دینے کی باری ہوئی تو کسی اور کو نواز دیا۔ فعالیت اور عدم فعالیت کا نشیب و فراز ان کی تنظیمی زندگی کا حصہ رہا۔
مرحوم روایتی تشیع انداز کے نمائندے تھے۔ قومیات سے وابستگی انہوں نے کسی نہ کسی طرح برقرار رکھی۔ وہ تشیع کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ دور دراز علاقے میں رہنے کے باوجود مرکزی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ وہ رواداری پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے پوری زندگی بھرپور گزاری۔ آپ بعض اوقات تنقید کا بھی نشانہ بنے، شہید علامہ عارف الحسینی کے بعد آپ نے علامہ سید ساجد علی نقوی کا ہاتھ تھاما اور آخر تک یہ ساتھ نبھاتے رہے، ضلع بھکر میں انتظامیہ کی سطح پر آپ کا امیج آخر تک بہت اچھا رہا اور جب کبھی بھکر کی سطح پر مسائل درپیش آئے تو آپ نے انہیں پرامن انداز میں حل کرنے کی ہر ممکن سعی کی۔ مرحوم سید وزارت حسین نقوی تشیع پاکستان کی مختصر تنظیمی تاریخ کے کئی نشیب و فراز بھی اپنے دل میں سموئے ہوئے تھے، اہم بات یہ کہ آپ کو ملت جعفریہ پاکستان کے تین قائدین کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہ شرف انتہائی کم خواص کو حاصل ہے، آپ کے اس دنیا سے جانے سے ایک اہم دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اللہ تعالٰی مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)