جھنگ الیکشن، حکمران جماعت نے سانپ مار کر لاٹھی بھی بچا لی
ابو فجر لاہوری
جھنگ میں صوبائی نشست پر ہونیوالے انتخابات پر وہی کچھ ہوا، جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، یعنی کالعدم سپاہ صحابہ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار مولانا مسرور نواز جھنگوی جیت گئے۔ اس الیکشن میں شدت پسند امیدوار کا جیتنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار کھڑا تو کیا تھا لیکن در پردہ مولانا مسرور نواز کی حمایت بھی کی جا رہی تھی۔ نون لیگ کی جانب سے ایسا امیدوار کھڑا کیا گیا جسے کو پورا حلقہ تو دُور کی بات ہے، اس کے اپنے محلے میں لوگ بھی اسے نہیں جانتے۔ اس کے علاوہ شیخ وقاص اکرم کا خاندان مضبوط سیاسی بیک گراؤنڈ رکھتا ہے، لیکن انہیں لگتا ہے کہ روک دیا گیا کہ وہ آگے نہ آئیں اور یوں میدان خالی رکھا جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ مسرور جھنگوی کو پڑ سکیں۔ لگتا ہے کہ نون لیگ نے انتہائی کامیابی سے اپنی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس طرح سانپ بھی مر گیا ہے اور لاٹھی بھی بچ گئی ہے۔
اب بعض حلقوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مسرور جھنگوی بہت جلد نون لیگ میں شمولیت کا اعلان کر دیں گے، اگر اعلان نہ بھی کریں تو اسمبلی میں وہ حمایت نون لیگ کی ہی کریں گے۔ مسرور جھنگوی کی جھنگ سے جیت یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں نیک نیتی نہیں دکھائی گئی اور شدت پسندی کی موجودگی میں یہ ہوا کہ شدت پسند جیت گئے ہیں۔ حالانکہ جھنگ میں کالعدم جماعت کے وابستگان کا ووٹ بینک اتنا زیادہ نہیں کہ وہ کامیاب ہوسکیں۔ اس حوالے سے یہ بھی باتیں کی جا رہی ہیں کہ بہت سے امیدواروں کو بھی "پلان” کے تحت میدان میں اُتارا گیا، تاکہ سپاہ صحابہ مخالفت ووٹ تقسیم ہو جائے اور اس الیکشن میں یہی کچھ ہوا۔ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک صوبائی نشست پر 24 امیدوار میدان میں تھے۔
جھنگ کے حالیہ الیکشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ شدت پسندی کو فروغ دینے والوں کو ابھی بھی "مقتدر قوتوں” کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ سرپرستی نہ ہوتی تو حکمران جماعت مسرور جھنگوی کو ہرانے کیلئے مضبوط امیدوار میدان میں اتارتی، شیخ وقاص اکرم گروپ فعال دکھائی دیتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ حکمران جماعت کی یہ پالیسی اسے آنیوالے انتخابات میں مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے، کیونکہ پاکستان کے عوام کسی اور بات پر متفق ہوں یا نہ ہوں، اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ "نیشنل ایکشن پلان” پر اس کی روح کے مطابق عمل ہونا چاہیے، یہ وہ اتفاق تھا جس کے باعث جنرل راحیل شریف پاکستان کے پاپولر ترین جرنیل بنے۔ یہی امیدیں اب عوام کو جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ہیں۔ قوم پُرامید ہے کہ جھنگ کے الیکشن میں مسرور جھنگوی کی جیت آرمی چیف کو بھی کو سوچنے پر ضرور مجبور کرے گی۔ اگر اس موقع پر بھی نہ سوچا گیا تو آنے والا وقت ملک کے امن و امان کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔