رَسولِ صادِق ؐ
تحریر: طاہر عبداللہ
مجھے تابِ سخن نہیں کہ سیرتِ مصطفٰی ؐ پہ کچھ لکھوں۔ یہ اعلٰی و اَرفع موضوع۔۔۔ جس شعور و آگاہی، فہم و فراست، سلیقہ و قرینہ اور زُہد و تقویٰ کا متقاضی ہے۔۔۔ بندہءِ ناچیز، کم علم و کم تر۔۔۔ ہرگز اِس قابل اور اہل نہیں ہے۔ اِس نااہلی کے باوصف، کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ مجھے قوی یقین ہے کہ رسولِ صادق ؐ کے نام کے صدقے میری کم فہمی اور کم علمی۔۔۔ سیرت النبی ؐ کے بیان کرنے میں حائل نہیں ہوگی۔
قرآن کے ہوتے کیا جرات مَیں آپ ؐکی آقاؐ نعت لکھوں۔۔۔۔ہے اِک صورت قرآن پڑھوں اور چن چن کے آیات لکھوں
آپ ؐکی حیات کا کوئی پہلو ایسا نہیں، جو قابلِ عمل اور قابلِ تقلید نہ ہو۔ آپ ؐ کی ذاتِ مبارکہ ایسی ہمہ جہت شخصیت ہے کہ تاریخِ عالَم مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تاریخِ عالَم کے نامور سپوتوں نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، وہ کسی ایک نقطہ یا کسی ایک پہلو سے نمایاں ہوئے۔ مگر عالمی تاریخ ایک ہستی محمد مصطفٰی ؐ کی شخصیت و کردار سے اُنگشتِ بدنداں ہے کہ کوئی بھی آپ ؐ کا ہمسر نہیں۔ آپؐ کی شخصیت کے جتنے پہلو ہیں، اپنی مثال آپ ہیں۔
آپؐ گفتگو فرماتے ہیں تو آئینِ جہاں رقم ہوتا ہے۔ خاموش رہتے ہیں تو حکمت و دانائی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ چلتے ہیں تو فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑتے جاتے ہیں۔ ؐرُکتے ہیں تو محبتوں کے پھُول کھِل اُٹھتے ہیں۔ صدیوں سے صف آراء قبائل، محمد بن عبداللہ کی دانائی سے شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ راست بازی کا اِتنا بلند معیار کہ کافر۔۔۔ امین اور صادق کے لقب سے پکارتے ہیں۔ آپؐ جب حجۃ الوداع کا خطبہ فرماتے ہیں۔۔۔ تو حقوقِ انسانی کا چارٹر مرتب ہو جاتا ہے۔
آپ ؐکا بچپن معصوم آپؐ کی جوانی بے عیب
آپ ؐکی حیات بے داغ آپؐ کا ہر پہلو حیاتِ مکتب
آپ ؐکی ہر بات ایک اصول، آپؐ کا ہر لفظ ایک داستان
آپؐ کا ہر قدم ایک منزل آپ ؐکا سفر، سفرِ جہاں
آپ ؐکا قیام، مرادِ حیات، آپؐ کا وجود، فخرِ کائنات
آپ ؐ کی بشریت، آبروئے اِنسانیت، آپؐ کی نبوت، رہبرِ عالم
آپ ؐ کا ہر قول، حدیث، آپ ؐکا ہر عمل، سُنت
آپؐ کی خلوت، خود آگاہی، آپؐ کی جلوت، خدا آگاہی
آپ ؐ کا وجود، برہانِ الٰہی، آپ کی ہستی، آئینہء ربانی
سادگی میں وہ جمال کہ حسنِ جہاں ماند پڑجائے۔۔۔
پیشانی اتنی روشن کہ راہب و کاہن ایک نظر میں بتا دیں کہ یہی وہ ہستیءِ پاک ہے کہ جس کےِ اشارے سے خامہءِ تقدیر رُک جائے۔
عناصرِ فطرت پہ ایسی دسترس کہُ انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو جائے۔
فیضانِ نظر ایسا کہ ساربان، حاکم بن جائیں اور صحرا نشین، فارس و روم کے فرمانروا ٹھہریں۔
مکتب ایسا تخلیق کیا کہ کرامتِ مکتب سے۔۔۔ جہاں بانوں سے لیکر قلم کار، اَولیاء سے لیکر حکماء، صوفیا سے لیکر مجاہدین کی وہ خوبصورت مالا تیار ہوئی کہہ اس کا ہر موتی آبدار اور ہر گوہر تابدار ہوا۔
وہ دانائے راز کہ حیات کے نہایت پیچیدہ اور دقیق مسائل کا آسان اور فطری حل پیش کیا۔
غنی ایسے کہ کبھی اُن کے در سے کوئی خالی نہ گیا اور زمانہ گواہ ہے کہ درمصطفٰی ؐسے آج بھی سائل دامن بھر بھر کر لوٹ رہے ہیں۔
عفو و درگزر کا یہ عالَم کہ طائف کے کم ظرف اور بدنصیب لوگ، جب کنکر برسا برسا کر فخر عالم کو نڈھال کر دیتے ہیں اور شدید زخمی حالت میں اُن لوگوں کی گوشمالی کیلئے۔۔۔۔ جب ربِ کائنات کی طرف سے آپ ؐسے دریافت کیا جاتا ہے تو آپ ؐفرماتے ہیں "یہ مجھے نہیں پہچانتے” اور رحمت اللعالمین ؐ کے لبوں کی مسیحائی سے طائف کے مکینوں سے عذاب ٹل جاتا ہے۔
اِنسانیت سے محبت اور احترام کا یہ عالم ہے کہ روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کی عیادت کیلئے اُس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔
قناعت پسندی میں وہ مقام کہ اللہ اللہ۔۔۔۔ پیراہن پر پیوند لگے ہیں اور آقائے دو جہاں ؐخود اپنے ہاتھوں سے پیوند لگا رہے ہیں۔ شاید آپؐ کی یہ خصلتِ حسنہ، اُس فرضِ منصبی کی بدولت تھی، جو آپؐ زندگی کے دریدہ دامن پر پیوندکاری کیلئے منتخب کئے گئے۔
امانتداری کا اِتنا خیال کہ جانی دشمنوں کے نرغے سے بچ کر۔۔۔۔ ہجرت کرتے وقت بھی تمام امانتوں کی واپسی کا اہتمام کرتے ہیں اور محمد مصطفٰیؐ کی جان کے درپے کفارِ مکہ بھی اپنی امانتیں آپ ؐامین کے ہاتھوں میں محفوظ سمجھتے ہیں اور ربِ کائنات نے بھی اپنی عزیز ترین متاع اور مخلوق، انسان کی رہبری کی امانت بھی آپ ؐامین کو سونپ دی۔
آپؐ کا اِستقلال ایسا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے تو سرک سکتے ہیں، لیکن محبوبِ خداؐ اپنی حق بات سے ذرہ برابر بھی نہیں سرکتے۔ یہاں تک کہ حضرت ابو طالب ؑ جیسی محبت کرنے والی اور رسالت کا ہر مقام پر ساتھ دینے اور دفاع کرنیوالی ذات کو بھی نہایت ادب سے بتا دیا۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں۔۔۔۔ تو مَیں پھر بھی حق بات کہنے سے باز نہیں آؤں گا۔ شعبِ ابی طالب ؑ کے وہ کربناک اور پرعزم مصائب و آلام کے تین سال بھی آپؐ کے پائے اِستقلال میں لغزش نہ لاسکے حتٰی کہ دیمک کو عہد نامہءِ عدمِِ وفا چاٹنا پڑا۔
دُور اندیشی اور معاملہ فہمی کی یہ حالت کہ صلح حدیبیہ کے وقت دشمن خوش ہو رہے ہیں اور اپنے بیتاب و بے قرار ہیں۔ مگر کچھ عرصے کے بعد اپنے عش عش کر اُٹھتے ہیں اور اغیار ہاتھ مَلتے رہ جاتے ہیں۔
زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ اتنے شیریں اور پُرتاثیر کہ کفارِ مکہِ اس خدشہ کے پیشِ نظر آپؐ کی بات نہیں
سنتے کہ مبادا شیریں گفتار کے زیرِ اثر اِسلام قبول نہ کر بیٹھیں۔
سیرتِ نبوی، پیغامِ ربانی کی عملی تفسیر تھی اور جو قرآنی آیات بذریعہ وحی آپؐ پر نازل ہوئیں، آپؐ نے اُن پر مِن و عن عمل کرکے دکھایا۔ اِس طرح حیاتِ طیبہ مسلمانانِ عالَم کیلئے ایک عملی نمونہ قرار پایا اور جو بات یا معاملہ قرآن کی آیات سے عیاں نہ ہو۔۔۔ وہ سیرتِ محمدؐ سے باوضاحت معلوم کیا جاسکتا ہے۔
یہ اُس ربِّ کائنات کی دانائی اور محمد مصطفٰی ؐ کی سچائی کا بین ثبوت ہے کہ آنحضورؐ کے منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے کی زندگی بھی قابلِِ رشک اور بے مثال ہے۔
تاریخِ عالَم انگشتِ بدنداں ہے کہ بچپن سے لے کر وصال تک۔۔۔ مصائب و آلام کے وہ پہاڑ ٹوٹے کہ جن کے تذکرے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے، مگر آپؐ کے پائے استحکام میں نہ کوئی لغزش آئی اور نہ اصول و ضوابط سے ہٹ کر کوئی قدم اُٹھایا۔
23 سال کے اِس مختصر عرصے میں جزیرہ نمائے عرب کے 9 لاکھ 30 ہزار مربع میل کے رقبہ پر پھیلے ہوئے، 273 قبائل کی 373 خود مختار مقامی حکومتوں کو سرنِگوں کرکے یکجا کیا اور واحد فلاحی مملکت قائم کی۔
آپؐ نے رُشد و ہدایت کے وہ سرچشمے جاری کئے، جو روکے نہ رکے اور نورِ ہدایت۔۔۔ جہانِ رنگ و بُو کے کونے کونے میں پھیل گیا۔
تاریخِ جہاں کو ایسا سپوت نصیب ہوا کہ بڑے بڑے حکماء، فضلا، اِس عظیم ہستی کی عظمت اور پاکیزگی کے بارے میں رَطب اللسان ہوئے اور آج تک بڑے بڑے عالم آپ کی شان میں قلم اُٹھا کر اپنی بہتری اور بخشش کا سامان کر رہے ہیں۔
فلکِ پیر نے ایسی لاجواب شخصیت نہیں دیکھی ہوگی، جس کے اوصافِ حمیدہ۔۔۔۔ بے نظیر، بے مثال اور بے شمار ہوں۔ جو دوستوں اور دشمنوں کیلئے رحمت اور ابرِ کرم ہو۔ جو عفو و درگزر کا قومی پیکر ہو۔
دُنیا کے شہنشاہ آپؐ کے قدموں کی مٹی سر پر ڈالنا فخر سمجھتے ہیں۔ اَولیاء اور پارسا آج بھی اُس خاک کو چومتے ہیں اور آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں، جس پر آج سے 1500 سال پہلے آپؐ کے قدم مبارک پڑے تھے۔ اِسی لئے علامہ اقبال سے نہ رہا گیا اور وہ وجد میں کہہ بیٹھے:
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہءِ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اسلام اور قرآن و سنت کے نام پر انسانوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا جو قتلِ عام پاکستان سمیت دُنیا بھرمیں ہو رہا ہے، اُس کی روک تھام کیلئے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر محمدی ؐاسلام کی حقیقی تصویر پیش کی جائے اور افکار محمدیؐ کو عام کیا جائے۔ ساتھ ہی اسلام اور انسان دشمن داعش، لشکر، سپاہ، جیش اور کالعدم دہشت گرد جماعتوں کی ہر مقام پر حوصلہ شکنی کی جائے۔ شریف حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ اداراتی، سیاسی اور ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر ملکِ پاکستان کی سالمیت و استحکام اور پاکستانی قوم کی سلامتی و بقا کی خاطر فوج کے ساتھ ایک پیج پر رہیں اور ظالم، سفاک، وحشی اور مسلمان نما دہشت گردوں کا صفایا کرکے اِسلام کے روشن چہرے پر لگی تکفیری کالک کو ہمیشہ کیلئے صاف کر دیں۔ نیشل ایکشن پلان پر اُس کی اصل روح کے مطابق عمل کرکے 70 ہزار سے زائد بے گناہ انسانوں کی بے چین روحوں اور اُن کے لواحقین کو شاد کر دیں اور 18 کروڑ خوفزدہ اور غمزدہ پاکستانیوں کو احساس دلا دیں کہ شریف حکومت واقعی حقیقی معنوں میں قوم کی خادم ہے۔