جماعت اسلامی کے ہیرو قاتل ہی کیوں ہوتے ہیں؟
تحریر: عامر ہزاروی
ترکی میں روسی سفیر کا قتل ہوا تو دوسرے دن جماعت اسلامی پشاور نے شام اور برما کے مسلمانوں کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاجی مظاہرے میں نوجوانوں نے روسی سفیر کے قاتل کی تصویریں سجا رکھی تھیں۔ فیس بک پہ کئی لوگوں نے اپنی پروفائل پکچر کی جگہ سفیر کی قاتل کی تصویر لگائی۔ بات صرف کارکنوں تک محدود رہتی تو چلو ہم نظر انداز کر دیتے لیکن پشاور کے ایک ذمہ دار نے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے روسی سفیر کے قاتل کو خراج تحسین پیش کیا آپ وہ ویڈیو سنیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایک ذمہ دار شخص اسٹیج پہ کھڑے ہو کے کیا کہہ رہا ہے؟
اگر آپ تھوڑا پیچھے جائیں تو آپ کو جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کا وہ بیان یاد ہو گا جس میں وہ دھڑلے سے کہتے ہیں میں پاکستانی فوجیوں کو شہید ماننے سے انکار کرتا ہوں اور دلچسپ امر یہ ہے کہ جماعت ان کی پشت پہ کھڑی ہوگئی تھی۔
مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی ایک سیاسی جماعت کے ہیرو ہمیشہ قاتل ہی کیوں ہوتے ہیں؟ ایک طرف یہ ترکی کے صدر کو اپنا صدر کہتے ہیں اور ان کا دفاع بھی کرتے ہیں دوسری طرف اسی صدر کی پولیس روسی سفیر کے قاتل کو قتل کردیتی ہے یہ قاتل پولیس کے ساتھ بھی ہیں اور مقتول کے ساتھ بھی۔ یہ ایسے دوست ہیں جو اپنے دوست کو مشکل میں پھنستا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
میں نے جب یہ ویڈیو لگائی تو بعض دوست کہنے لگے کہ سفیر کا قتل اگرچہ درست نہیں لیکن مارنے والے کے جذبات نیک تھے۔ حضور اگر جان کی امان پاؤں تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ فرض کریں کہ میں اپنے دل میں سراج الحق کو قتل کرنے کی ٹھان لیتا ہوں۔ میرا جذبہ یہ ہو کہ سراج الحق کو قتل کر کے مجھے جنت ملے گی تو کیا واقعی میرے جذبات کو سراہا جائے گا؟ بیگناہ سراج الحق کا قتل میرے لیے کس طرح جائز ہو گا؟ میرے نیک خیالات کے باوجود میں ہیرو کیسے بن سکتا ہوں؟
یہ کوئی دلیل ہے کہ مارنے والے کے جذبات ٹھیک تھے؟
سوال یہ ہے کہ خرابی کہاں ہے؟ یہ قاتل کو ہیرو کیوں ماننے لگ جاتے ہیں؟
اصل خرابی اس سوچ میں ہے جو مولانا مودودی صاحب دے کر گئے۔ عالمگیریت کی سوچ نے جماعت اسلامی کو تذبذب کا شکار کر دیا ہے۔ ان کی سوچ اس دور میں کہیں لاگو نہیں ہو سکتی۔ یہ ابھی تک اس حقیقت کا ادراک ہی نہ کر سکے کہ یہ دور نیشن اسٹیٹ کا ہے۔ عالمگیریت کی باتیں کہیں کتابوں میں ہوں گی لیکن ان کا موجودہ دور کیساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اب دور جمہوریت کا ہے۔ اب سرحدیں ایک حقیقت بن چکی ہیں۔ ملک مفادات دیکھتے ہیں مذہب نہیں۔
اگر جماعت اس سچائی کا اقرار کر کے اپنی پالیسی ازسرنو مرتب کرتی ہے تو اسے فائدہ ہو گا ورنہ یہی صورتحال رہی تو جماعت اسلامی نئی القاعدہ بنے گی۔ اس کے کارکن اٹھ کے پہلے قیادت کو ماریں گے پھر باقی مسلمانوں کو رگڑا دیں گے۔