مشرق وسطی

بشار اسد حکومت کو گرانے کی باتیں ہمیشہ کیلئے دم توڑ گئیں

دمشق (مانیٹرنگ ڈیسک )شام کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر کوئی بھی بشار اسد حکومت کو گرانے کی بات نہیں کرسکتا اور اگر کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ موجودہ سیاسی صورتحال سے مکمل طور پر غافل ہے۔ سال 2016 ایسی حالت میں ختم ہونے جا رہا ہےکہ مزید کوئی بھی شامی صدر بشار اسد کی حکومت گرانے کی بات نہیں کر رہا اور یہ موضوع مزید ختم ہوچکا ہے اور اگر کوئی اس بات پر تبصرہ کرنا چاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خطے اور بین الاقوامی تناظر میں سیاسی پیش رفت سے مکمل طور پیچھے رہ گیا ہے۔
اسی ضمن میں ترجمان روسی وزارت خارجہ ماریہ زاخاراف نے ہمیشہ کی طرح وضاحت دی: مزید کوئی بھی شخص بشار اسد حکومت کے گرنے کی بات نہیں کررہا سوائے انتہا پسندوں یا دہشتگردوں کے جو اس حکومت کے سخت مخالف ہیں۔اس موضوع کو عربی اور یورپی سطح پر بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔یورپی اور عربی ممالک کی حالیہ گفتگو کے پیش نظر جو قاہرہ میں وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوئی، سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کا موقف شام کے سرکاری موقف کے بالکل نزدیک ہوگیا ہے۔اس سلسلے میں مصر کے ایک اعلی عہدیدار نے تاکید کی کہ مشترکہ اعلامیہ میں ایک بند کو دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کی مذمت سے مختص کیا جائے۔
انہوں نے کہاکہ وہ عناصر جو حلب آزادی پر آنسو بہا رہے ہیں، کو چاہئے تھا کہ دہشتگردوں کی حمایت نہ کرتے اور ان کو حلب میں تعینات نہ کرتے۔مصر کی جانب سے یہ موقف جو الجزائر اور عراق کی مانند بعض دیگر عرب ممالک کا موقف بھی تھا، مکمل طور پر قطر اور سعودی عرب کے موقف کے خلاف ہے۔دوسری جانب یورپی یونین شام جنگ سے مرتبط ممالک کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کی تیاری کر رہا ہے جن میں ترکی، ایران، سعودی عرب، مصر، قطر، اردن اور لبنان شامل ہیں۔ان اجلاسوں کا مقصد ذکر شدہ ممالک کی ریڈ لائینز کا تعین کرنا ہے جن کے آپس میں مشترکہ نکات بھی ہیں جو سیاسی راہ حل میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button