2016 میں شامی بچوں پر موت کے سائے لہراتے رہےاقوام متحدہ کی رپورٹ
یونیسفنے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ شام میں اسپتال، کھیل کے میدان، پارک اور گھر بھی بچوں کے لیے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ یہ اکثر حملوں کی زد میں آتے رہتے ہیں۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت جاری کی گئی ہے جب دو روز بعد ہی شام کی خانہ جنگی کو شروع ہوئے چھ سال مکمل ہونے جا رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 255 بچے اسکولوں یا ان کے قرب و جوار میں پیش آنے والے واقعات میں مارے گئے۔
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ شام میں طبی سہولتوں کا نظام تیزی سے تباہ ہو رہا ہے اور بچے مشقت کرنے پر مجبور ہونے کے علاوہ کم عمری کی شادی کے شکار اور لڑائی میں شریک ہو رہے ہیں۔
ایک ہفتہ قبل بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "سیوو دی چلڈرن” نے بھی کہا تھا کہ شامی نوجوانوں میں "زہریلے ذہنی دباؤ” کے آثار دکھائی دیتے ہیں جو کہ ان کی زندگی میں آگے چل کر سنگین طبی مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔
یونیسف کا کہنا تھا کہ شام میں بچوں کو بطور جنگجو استعمال کرنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ سال مسلح دھڑوں کی جانب سے کم ازکم 851 بچوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا۔
خیال رہے کہ یہ تعداد 2015ء کی نسبت دگنی سے بھی زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ شام میں ہر تیسرے اسکول کی عمارت قابل استعمال نہیں ہے اور ملک میں 17 لاکھ بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں۔
جبکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں بطور پناہ گزین بچوں کی تعداد لگ بھگ 23 لاکھ ہے۔