Uncategorized

جمعیت علماء پاکستان نے جنرل راحیل کی سعودیہ کو خدمات دینے پر تحفظات کا اظہار کردیا

شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) جمعیت علما پاکستان کے مرکزی صدر پیر اعجاز ہاشمی نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی کمانڈ سنبھالنے کی اطلاعات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ خارجہ پالیسی اور پارلیمنٹ کے غیر جانبدارانہ رہنے کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ لاہور میں جے یو پی کی میڈیا ٹیم سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بڑی نیک نامی کمائی ہے، اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے، سب جانتے ہیں کہ عسکری اتحاد کن ممالک کیخلاف بنا ہے اور ان کے نزدیک دہشتگردی سے مراد کیا ہے؟ جو ممالک اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت کرنیوالی مجاہد تنظیم حزب اللہ کو دہشتگرد قرار دیں، ان کے عزائم کا اندازہ کرنا مشکل نہیں، اس لئے جے یو پی نے ہمیشہ اتحاد امت اور مسلم ممالک کے درمیان تنازعات میں غیر جانبدار رہنے کا مطالبہ کیا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، حقیقت یہی ہے کہ یمن، شام اور بحرین میں جاری جنگ میں سعودی عرب اور ایران فریق ہیں، حکومت پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دونوں متحارب اسلامی ممالک کے درمیان صلح کیلئے ترکی اور انڈونیشیا کو ساتھ لے تنازعات حل کروائیں۔

انہوں نے کہا کہ شیعہ سنی کی بنیاد پر اتحاد بننا شروع ہوگئے تو اس کا نقصان اسلامی قوت کو ہوگا، حرمین شریفین کے نام پر تحفظ کی باتیں بھی اب ختم ہونی چاہیں، تمام مکاتب فکر کا بیت اللہ ہی قبلہ ہے، آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اور آخری الہامی کتاب قرآن مجید پر ایمان ہے تو فقہی اور سیاسی اختلافات کو کفر اور اسلام کی جنگ سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے، تکفیری سوچ نے جو نقصان امت کو پہنچایا ہے، اس کا اندازہ تجزیہ کرکے اتحاد کیلئے لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیے، ہمیں سوچنا چاہیے کہ اسلام کا وسیع تر مفاد کس بات میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اہلسنت اکثریت میں ہیں، جو کہ اس ملک کے بانی ہیں اور محافظ بھی، لیکن شیعہ کی تعداد اور ان کی قیام پاکستان میں خدمات کو بھی آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اتحاد اسلامی کا باقاعدہ طور پر پلیٹ فارم ملی یکجہتی کونسل کی شکل میں تشکیل پایا اور فرقوں کے درمیان اختلافی امور پر ضابطہ اخلاق موجود ہے، اس بات سے قطع نظر کہ مسلکی ہم آہنگی کے اس اتحاد کا بعد میں کیا حشر ہوا ہے، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اتحاد بین المسلمین میں قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ ساجد علی نقوی، مولانا سمیع الحق اور قاضی حسین احمد نے کلیدی کردار ادا کیا مگر افسوس کہ اسے آگے بڑھایا نہیں جا سکا اور رخنہ اندازیوں سے نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اسی اتحاد سے مستفید ہوتے ہوئے ہمیں عالمی سطح پر فرقہ واریت کے خاتمے سے مدد لینی چاہیے۔ اس حوالے سے امہات المومنین رضی اللہ عنہم اور شعائر اہلسنت کے احترام کے حوالے سے سپریم ایرانی لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے فتاویٰ خوش آئند ہیں، ہمیں اتحاد کی طرف توجہ دینی چاہیے، اختلافی امور سے گریز کیا جانا چاہیے، جیو اور جینے دو کی پالیسی کے ساتھ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں اور فرقوں کے درمیان مشترکات کو فروغ دیں۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button