مضامین

کیا راحیل شریف سعودی اتحاد کی سربراہی قبول کر پائیں گے!!!

تحریر: نادر بلوچ

سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ابھی چھ ہفتے نہ ہوئے تھے کہ سعودی عرب پہنچ گئے۔ سوشل میڈیا پر خبریں آنا شروع ہوئیں کہ سابق آرمی چیف کو سعودی خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور سے ریاض لےجایا گیا جہاں انہیں شاہی خاندان سے ملوایا گیا، جنرل راحیل شریف کو ایک اسٹیٹ گیسٹ (ریاستی مہمان) کا درجہ دیا گیا، مکمل پروٹوکول جو کسی وزیراعظم یا حاضر سروس آرمی چیف کو دیا جاتا ہے وہ دیا گیا، ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، خبریں پھیلانا شروع ہوئیں کہ جنرل راحیل شریف نے سعودی کمان میں 39 رکنی ممالک کی فوج کی سربراہی سنبھال لی ہے۔ مختلف اخبارات میں خبریں چھپنا شروع ہوئیں تاہم تصدیقی خبر کہیں پر سامنے نہیں آ رہی تھی، ہر اخبار یہی لکھ رہا تھا کہ اس خبر کی سرکاری سطح پر تاحال تصدیق نہیں ہو سکی، اس دوران اچانک وزیر دفاع خواجہ آصف نے سید طلت حسین کے پروگرام میں اس خبر کی تصدیق کردی کہ حکومت کی مرضی اور جی ایچ کیو کی کلئیرنس کے بعد جنرل راحیل شریف کی تعیناتی ہوئی ہے۔ اس تصدیق کے بعد دنیا بھر کے اخبارات نے اس خبر کو خصوصی جگہ دی۔

معاملے پر دو دن بعد ہی چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے وزیر دفاع خواجہ آصف سے تفصیلات طلب کرلیں اور کہا کہ بتایا جائے کہ جنرل راحیل شریف حکومتی مرضی سے سعودی عرب تعینات کیے گئے ہیں یا نہیں، انہیں این او سی کس نے دیا؟، جس نے دیا اس کا نام بھی ایوان بالا کو بتایا جائے۔ اس پر وزیر دفاع نے فوری دفاعی لائن پکڑی اور کہا کہ حضور تفصیلات دو روز بعد ہی دے سکوں گا، ابھی تو مجھے خود کچھ پتہ نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ یوں چیئرمین سینیٹ کی طرف سے معاملہ اٹھائے جانے کے بعد میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا، اینکرز کو ٹاک شوز کیلئے موا د مل گیا جبکہ سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا، جنرل راحیل شریف کے حوالے سے ٹوئٹر پر ٹرنڈ بھی چلا جس میں دس ہزار لوگوں نے ٹوئٹ کیے۔ ایک خاص فکر کے علاوہ سب تنقید کر رہے تھے کہ جنرل راحیل شریف نے ریٹائرمنٹ کے دو سال مکمل کیے بغیر کیسے دوسری جاب کر سکتے ہیں، وہ ملک کے اہم ترین عہدے پر تعینات رہے، ان کے پاس حساس معلومات ہیں، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا تو ویسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے دو دن بعد سینیٹ میں اپنے سابقہ بیان پر ایک بڑا یوٹرن لیا اور بتایا کہ سابق آرمی چیف عمرے کی غرض سے سعودی دعوت پر ریاض گئے تھے۔ انہوں نے اسلامی ممالک کی سربراہی کے حوالے سے کوئی این او سی نہیں مانگا اور نہ ہی ابھی تک اس حوالے سے کوئی درخواست سامنے آئی ہے، خواجہ سیالکوٹی نے بتایا کہ راحیل شریف دو روز قبل وطن واپس پہنچ چکے ہیں، واپسی کے بعد بھی انہوں نے ابھی تک این او سی کیلئے رجوع نہیں کیا۔ اگر انہوں نے این او سی مانگا تو حکومت قانون کے مطابق کارروائی کرے گی، سینیٹ میں مشیر امور خارجہ نے انکشاف کیا کہ جنرل راحیل شریف کو تو ایسی کوئی آفرہی نہیں ہوئی۔ اس پر چیئرمین سینیٹ نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر این او سی کے حوالے سے حکومت کے پاس درخواست آئے تو ایوان بالا کو لازمی آگاہ کیا جائے، یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ کل اگر ایران نے کوئی اتحاد بنا لیا اور ہمارا کوئی جنرل وہاں ریٹائرڈ فوجیوں کو لیکر چلا گیا تو پاکستان کہاں اسٹینڈ کرے گا۔ لہذا ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جس سے ملک کی خارجہ پالیسی متاثر ہو۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے یمن معاملے پر فوج نہ بھیجنے کا اعلان کیا تھا، وہ فیصلہ اب بھی اپنی جگہ پر برقرار ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے نجی ٹی وی پر بتایا تھا کہ جنرل راحیل کی ان سے بات ہوئی ہے، راحیل شریف سعودی اتحاد کے کمانڈر ہوں گے کسی کے ماتحت نہیں ہوں گے۔ ایران کو اس اتحاد میں شامل کیا جائے گا اور رکن ممالک میں ثالثی کا پورا اختیار ہو گا۔ جنرل راحیل نے انہیں بتایا ہے کہ سعودی عرب نے ان کی یہ تین شرائط مان لی ہیں۔ باقاعدہ پروپوزل مارچ تک حکومت پاکستان کو بھیجا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف اور وزیر دفاع کے متضاد موقف نے قوم کو کنفیوژ کردیا ہے۔ خواجہ آصف نے پہلے خبر کی تصدیق کی پھر مکر گئے، اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے بھی تصدیق کی پھر سارا ملبہ وزیر دفاع پر ڈال دیا کہ انہو ں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ یہ ساراماجرا کیا ہے؟۔ کچھ تجریہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت سعودی عرب کو انکار نہیں کرسکتی تھی اس لئے جنرل راحیل کو بھیجوا دیا تاہم اب اپوزیشن جماعتوں اور عوام کے پریشر میں آکر انکاری ہوگئی ہے، اب سعودی عرب کو بتائیں گے کہ ہم اس چیز کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ ایران نے پاکستان کو واضح پیغام دیا ہے کہ چاہ بہار بندگار گوادر کے مقابل میں نہیں ہے تاہم اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کسی خاص سمت جھکاو آتا ہے تو پھر اس بندرگاہ کو مقابل میں سمجھا جائے۔ دوسرا یہ کہ ایران روسی بلاک میں شامل ہے جس میں چین بھی شامل ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان کیلئے یہ سعودی بلاک کا حصہ بننے کا اقدام خودکشی کے مترادف ہوگا۔ کیوں کہ چین اس وقت پاکستان میں 54 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ کسی صورت یہ برداشت نہیں کرے گا کہ خطے میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو۔ خود سعودی اتحاد کے حوالے سے بہت کنفیوژن ہے، اس اتحاد کے اہداف اور مقاصد کیا ہیں، کتنی
فوج ہوگی، ٹارگٹس کیا ہیں، لڑائی کا طریقہ کار کیا ہوگا، داعش سے مراد کونسی داعش ہے، آیا وہ داعش جو عراق اور شام میں لڑ رہی ہے یا وہ داعش جو سعودی عرب کے اندر کارروائیاں کرا رہی ہیں۔ آیا یہ اتحاد فلسطین اور کشمیر کی آزادی کیلئے بھی کوئی رول ادا کرے گا یا نہیں۔ مسلمانوں کا ازلی دشمن اسرائیل ہے اس حوالے سے یہ اتحاد کیا اقدام کرے گا جبکہ سعودی عرب تو اعلانیہ اسرائیل کا دوست ہے۔

جنرل راحیل کے حوالے سے اب فضا ان کے حق میں نہیں رہی، عین ممکن ہے کہ وہ اتحادی کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ ذرائع کے مطابق، فوج کے اندر ادارہ جو اسسمنٹ کا کام کرتا ہے اس نے اس اتحاد کی سبراہی قبول کرنے کے حوالے سے تباہ کن نتائج سے جی ایچ کیو کو آگاہ کردیا ہے۔ اس اسسمنٹ رپورٹ کے حوالے سے وزیراعظم کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اگر راحیل شریف اتحاد کی سربراہی قبول کرتے ہیں یا کمٹمنٹ دے چکے ہیں تو انہیں این او سی کیلئے درخواست دینا پڑے گی، اس کے بعد حکومت کیلئے لازمی ہوگا کہ وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے جبکہ پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن اس چیز کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔

 
 
 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button