فوعہ و کفریا کا محاصرہ آخر کب تک؟
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
دو شیعہ نشین قصبے سوریہ کے شمال مغرب محافظہ ادلب (ادلب ڈویژن) میں واقع ہیں۔ چاروں اطراف سے تکفیری دہشتگردوں نے گذشتہ تقریباً تین سال سے ان کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ ان دونوں قصبوں کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ابھی اس وقت تقریباً 18 ہزاہ لوگ رہتے ہیں۔ ادلب شہر پر تکفیریوں نے ترکی کمانڈوز، امریکہ، غرب، سعودیہ، قطر وغیرہ کی مدد سے تازہ دم دستوں اور جدید تریں جنگی اسلحہ سے قبضہ کر لیا۔ اس وقت سے یہ لوگ مکمل حصار میں آ چکے ہیں، کیونکہ یہاں سے نکلنے کے تمام تر راستے بند کر دیئے گئے۔ یہ علاقے ترکی بارڈر سے تقریباً 17 کلو میٹر پر واقع ہیں۔ ادلب ڈویژن کی سرحد مغرب سے ترکی، مشرق سے حماۃ ڈویژن اور شمال سے حلب اور جنوب سے لاذقیہ ڈویژن سے ملتی ہے۔ فوعہ اور کفریا نے مقاومت اور قربانیوں کی عظیم مثالیں رقم کی ہیں۔ انکے صبر و استقامت کی وجہ سے ادلب ڈویزن مکمل طور پر تکفیریوں دہشتگردوں کے قبضے میں نہیں آسکا۔ یہ لوگ جنکے 80% گھر دہشتگردوں کی بمباری سے تباہ ہوچکے ہیں، انکی امداد کا کوئی راستہ نہیں۔ تقریباً 50 کلو میٹر دور تک سیرین آرمی کا وجود نہیں۔ ان سب علاقوں پر سعودی، امریکی اور ترکی و اسرائیلی ایجنٹ قابض ہیں۔ دہشگردوں نے بجلی اور پانی کے کنکشن تقریباً اڑھائی سال سے کاٹ دیئے ہیں، چاروں اطراف سے ہزاروں بار انھوں نے پوری طاقت کے ساتھ حملے کئے، لیکن سلام ہو، اس خطے کے بہادر عوام پر، جنھوں نے ہزاروں شہید تو دیئے، لیکن اپنی زمینی حدود کو ناپاک دشمن کے وجود سے آلودہ نہیں ہونے دیا، زن و مرد اور پیر و جوان سب نے ملکر دفاع کیا۔
کبھی کبھی شامی حکومت کے ہیلی کاپٹرز بلندی سے انکے لئے امداد سامان پھینکتے ہیں تو ضروریات زندگی اور علاج و معالجہ کی دوائیں انہیں مل جاتی ہیں اور کبھی یہ امداد بھی دشمن کے علاقے میں گرتی ہے یا انکے گولوں اور میزائلوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ انہوں نے مریضوں اور زخمیوں کے علاج کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت بعض گھروں میں صحت کے مراکز بنائے، انہیں بھی دشمن نے میزائلوں اور گولہ باری سے تباہ کر دیا ہے۔ جو سبزیاں اور اناج اپنی زمینوں میں کاشت کرتے ہیں، وہی کھاتے ہیں اور جو مویشی پالتے ہیں، انہی سے ضروریات پوری کرتے ہیں۔ پینے کے پانی کو نکالنے اور فصلوں کی سیرابی کے لئے پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بجلی، گیس، ڈیزل اور پٹرول نہ ہونے کے سبب سابقہ ٹیوب ویل اور موٹریں نہیں چلتیں۔ وہ اب نئے کنویں خود کھود کر کچھ پانی دیسی طریقوں سے نکالتے ہیں۔ بارود، گرد و غبار، غذا کی قلت اور ادویات کی عدم فراہمی کی وجہ سے موذی امراض اور وبائیں پھیل رہی ہیں۔ انکی کسمپرسی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہزاروں رپورٹس انسانی حقوق کے دعویداروں اور اقوام متحدہ کو باقاعدہ مل چکی ہیں۔ لیکن ان کا قصور یہ ہے کہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے دنیا نہ انکے انسانی حقوق کو تسلیم کرتی ہے اور نہ کلمہ شھادت پڑھنے کے باوجود انکے مسلمانی حقوق کو قبول کرتا ہے۔
حلب کے عوام کی جھوٹی اور من گھڑت مظلومیت پر واویلا کرنے والے بین الاقوامی، مقامی میڈیا چینلز، انسانی حقوق کے علمبردار نام نہاد علماء و خطباء، سیاسی و مذہبی جماعتیں و شخصیات اور حکومتیں کیوں گنگ و خاموش ہیں۔ کیوں ان مظلوموں کو سوشل اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں کوریج نہیں دیتے۔ یہ لوگ بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ ہم کربلا والے ہیں۔ بنی امیہ کے فوجیوں نے کل 61 ہجری کو کربلا کے ریگزار پر فرزند رسول خدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا محاصرہ کیا تھا اور پانی بھی بند کیا تھا، جوانان جنت کے سردار کو اپنے اس زمانے کے میڈیا میں باغی بنا کر شھید کیا تھا، دختران رسول کریم کے خیموں کو چاروں طرف سے آگ لگائی اور انکے خیموں کو راکھ کیا گیا تھا۔ آج تاریخ ایک بار پھر دھرائی جا رہی ہے۔ یہاں کے مکین کہتے ہیں کہ ہم اس حصار، آگ و بارود سے گھبرانے والے نہیں، اس زمانے کے یزیدی لشکر کا مقابلہ اپنے آقا و مولا اور انکے اصحاب باوفا کی طرح ڈٹ کر کریں گے، اپنے وطن کے دفاع اور اپنی ملت کی عزت و کرامت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ میدان کربلا عصر میں پیش کریں گے۔ آج ہر غیرتمند، باضمیر انسان اور مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انکی صداء "ہل من ناصر ینصرنا” اور "ھل من مغیث یغیثنا” پر لبیک کہے اور دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہونے والے اس ظلم کو آشکار کرے۔ یہ دو قصبے تکفیریت اور دہشتگردی کے سمندر کے درمیان ایک جزیرہ کی صورت اختیار کرچکے ہیں. آئیں ان ہزاروں انسانوں اور مسلمانوں کو بچانے کے لئے بھرپور آواز بلند کریں، تاکہ عالمی ضمیر جاگ کر انہیں بچانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے، دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور ظالمانہ حصار کی زنجیریں پاش پاش ہو جائیں۔