پاکستانی شیعہ خبریں

ملک دشمن قوتوں کیجانب سے پاراچنار دھماکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنیکی کوشش ہے، ناصر خان درانی

رپورٹ: ایس علی حیدر

نوشہرہ پولیس لائن میں ڈسپیوٹ ریزولیشن کونسل اور پولیس لیزان کونسل کی منعقدہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ناصر درانی نے کہا ہے کہ ملک دشمن قوتوں کی جانب سے پاراچنار دھماکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی قربانیاں رنگ لائی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، 2016ء میں دہشتگردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ 2016ء خیبر پختونخوا پولیس اور عوام کیلئے کامیابی کا سال ثابت ہوا۔ دہشتگردی کے واقعات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ کے پی کے پولیس نے 1182 انتہائی مطلوب دہشتگردوں کو گرفتار کیا اور 768 پرانے دہشتگردوں کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا، جبکہ چھ لاکھ گھروں کو چیک کرکے کرایہ داری ایکٹ کے تحت 25 ہزار پرچے درج کئے۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف پاک فوج کے آپریشن ضرب غضب کے بعد فرار ہونے والے دہشتگردوں کو گرفتار کرنا پولیس کیلئے ایک چیلنج تھا، سرحدوں پر حالات اب بھی سنگین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشتگردوں کے بہت نیٹ ورک توڑ دیئے ابھی بھی دہشتگردی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ بہت سے دشمن ممالک کی ایجنسیاں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں، ان کے عزائم خطرناک ہیں، ہمیں محتاط رہنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج اور عوام کے تعاون سے بہت جلد خیبر پختونخوا میں مثالی امن بحال ہوگا۔ مزید کہا کہ جہاں ناانصافی ہوگی وہاں جرائم میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی دو تہائی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں زمانہ قدیم سے پنچائت اور جرگہ سسٹم سے عوام کے مسائل حل ہو رہے تھے۔ ڈی آر سی اور پبلک لیزان کمیٹیاں غریب عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے جرگہ اور پنچائت کی جدید قسم ہے، جس کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں قتل کی شرح دیگر صوبوں سے زائد ہے۔ پولیس، ڈی آر سی اور پبلک لیزان کمیٹی مل کر اس کی شرح میں خاطر خواہ کمی لاسکتے ہیں۔ ناصر درانی نے کہا کہ دہشتگردوں سے تفتیش کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ان کی دہشتگردی کی جانب رجحان مختلف اداروں کی جانب سے ہونے والے ناانصافی کا ردعمل ہے۔ ڈی آر سی کی بنیاد پشتو کے دو محاورات (پڑ می کہ نو مڑ می کہ) اور دوسرا ہے (پیاز دی وی خو پہ نیاز دی وی) پر رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ڈی آر سی کا جدید سہولیات سے آراستہ دفاتر موجود ہے، جس کا مقصد غریب عوام کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ وہ ہمارے اور معاشرے کے ایک اہم افراد ہیں۔

ڈی آر سی میں غریب طبقے کے مسائل خوش اسلوبی سے حل ہو رہے ہیں۔ کوہاٹ، ایبٹ آباد اور نوشہرہ میں ہمارے ہائیکورٹ کے سابق معزز جج حضرات موجود ہیں، جن سے ہم استفادہ کر رہے ہیں۔ یو این ڈی پی کے مطابق ہمارے ڈی آر سی دنیا کے ممالک کیلئے رول ماڈل ہیں۔ دنیا یہ بات بھی تسلیم کرچکی ہے کہ ہماری خیبر پختونخوا کی پولیس انڈیا کی پولیس سے کئی درجہ بہتر ہے۔ پبلک لیزان کمیٹیوں کے ممبران بنیادی سطح پر عوامی مسائل سے آشنا ہیں۔ صوبائی پولیس چیف نے کہا کہ پولیس نے جتنے دہشتگردوں کو گرفتار کیا ہے، اگر یہ واقعات بھی ان کی وجہ سے ہو جاتے تو کتنا جانی نقصان ہوتا۔ ہمیں ابھی بھی بہت احتیاط سے کام کرنا ہوگا۔ غیر جسٹرڈ افغانی ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ این ٹی ایس کے ذریعے گریجویٹس افرادی قوت ہمارے پاس آگئی ہیں، اب ان کیلئے پروموشن کا انتظام نہ ہو تو ان میں ہیجان کی کیفیت پیدا ہوگی، ان کیلئے ہم نے تیز رفتار ترقی کا فارمولا رکھا ہے کہ ہر رینک میں 25 فیصد اہلکار امتحان دیں اور ریکارڈ درست ہو، سولہ سال میں سپاہی ڈی ایس پی رینک تک پہنچ سکتا ہے اور اس کے علاوہ ڈی آئی جی تک بھی وہ پہنچ سکتا ہے۔ نئے پولیس آرڈر میں پولیس کو فورس کا درجہ دے دیا گیا ہے، جس سے پولیس کی پیشہ وارنہ صلاحیتیں بڑھے گیں اور انکو ترقی کے موقع ملیں گے۔

انہوں نے خیبر پختونخوا پولیس میں صوبے کے بھرتی افسران کے بارے میں کہا کہ چونکہ یہ وفاق کا ادارہ ہے، یہ افسران سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ دونوں میں کیس ہار چکے ہیں۔ تاہم ان کو اگلے گریڈ میں ترقی دینے کیلئے ایک قانون موجود ہے۔ ناصر درانی نے کہا کہ نئے پولیس آرڈر میں صوبے کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پانچ فیصد ڈائریکٹ افسران بھرتی کرنے کا اختیار حاصل رہے گا۔ بھرتی کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے، لیکن اب دیکھنا ہے کے اس اختیار کو استعمال کرنا ہے کہ نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے نوشہرہ پولیس لائن میں موجود سکول آف ایکسپلوسیو ہینڈلنگ کا دورہ کیا اور وہاں پر تربیت حاصل کرنے والے پولیس اور لیڈی پولیس کمانڈوز کو مختلف ہدایات دیں۔ وہاں پر موجود بم ڈسپوزل سکواڈ نے ان کو بارودی مواد ناکارہ بنانے کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا۔ ناصر درانی نے کورس مکمل کرنے والے پولیس اہلکاروں اور افسران میں سرٹیفیکیٹس تقسیم کئے۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button