پشاور میں تکفیری مدارس اور مساجد اب بھی امن کیلئے خطرہ
رپورٹ: ایس اے زیدی
پشاور کا شمار ملک کے ان چند اہم شہروں میں ہوتا ہے جو دہشتگردی کی آگ میں بری طرح جلے ہیں، گذشتہ چند سالوں کے دوران پشاور کے حالات میں قدرے بہتری نظر آئی ہے، تاہم پھر بھی اس شہر نے ہزاروں افراد کی قربانی دی ہے۔ دہشتگردی کے تانے بانے مختلف کالعدم تنظیموں جن میں تحریک طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی وغیرہ سے ملے۔ اس کے علاوہ بھی کئی گروہ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں ملوث پائے گئے۔ نیشنل ایکشن پلان جاری ہونے کے بعد ایسے مدارس اور مساجد کی چھان بین کا آغاز کیا گیا، جن کا کردار دہشتگردی کے حوالے سے مشکوک ہو یا پھر وہ براہ راست دہشتگردی میں ملوث رہے ہوں۔ ملک کی کئی اہم محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتیں اس جانب حکومت کو متوجہ کرتی آئی ہیں کہ ملک میں ہونے والی دہشتگردی میں بعض مخصوص مدارس اور مساجد کا بھی کردار ہے، لیکن حکومت نے اب تک اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
دو روز قبل پشاور میں پولیس اہلکاروں نے خفیہ اطلاع ملنے پر موٹروے کے ساتھ واقع بینظیر اسپتال کے قریب مسجد ابوبکر پر چھاپہ مارا۔ اس دوران مسجد سے 2 خودکش جیکٹس برآمد ہوئیں، پولیس کے مطابق یہ جیکٹس مسجد کے موذن کے کمرے سے ملیں، جن میں 5 کلوگرام بارودی مواد موجود تھا۔ تاہم چھاپے کے وقت موذن اپنے کمرے میں موجود نہیں تھا۔ سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز سجاد خان کا کہنا تھا کہ خودکش جیکٹس ناکارہ بنا دی گئیں جبکہ ملزمان کی تلاش میں سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا گیا۔ پشاور کی اس مسجد (ابوبکر) سے خودکش جیکٹس کی برآمدگی انتہائی اہم معاملہ ہے۔ ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا ہے کہ پشاور میں اس کے علاوہ بھی کئی مدارس اور مساجد موجود ہیں، جن کا کردار دہشتگردی، انتہاپسندی یا فرقہ واریت کے حوالے سے خاصا مبہم ہے۔ اس حوالے سے پشاور کا علاقہ متنی ٖکافی متنازعہ ہے، کیونکہ یہاں کالعدم سپاہ صحابہ کا کافی اثر و رسوخ ہے، یہاں پر کئی بم دھماکے ہوچکے ہیں، جن میں عام عوام اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔
ایک شہری نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا کہ وہ تبلیغی جماعت کا کارکن ہے اور اس جماعت کی تشکیل کچھ عرصہ قبل پشاور میں ہوئی، جب وہ متنی کے علاقہ میں واقع مکتب دیوبند کی اس مسجد میں آئے تو وہاں مسجد کے منتظمین کا رویہ ہمارے ساتھ بھی کافی سخت تھا۔ اس کے علاوہ وہ اہلسنت (بریلوی) اور اہل تشیع کے حوالے سے کافی سخت سوچ رکھتے تھے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ انہیں برداشت بھی نہیں کرتے تھے تو غلط نہ ہوگا۔ علاوہ ازیں پشاور شہر کے علاقہ کوہاٹی میں واقع مسجد پر بھی تکفیریوں کا اعلانیہ قبضہ ہے، اس مسجد سے 1992ء میں یوم عاشور کے موقع پر جلوس عزا پر فائرنگ کی گئی، اس سانحہ میں 8 افراد شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اس مسجد کی انتظامیہ کیخلاف تاحال حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔ گلبہار کے علاقہ جاوید ٹاون میں بھی واقع ایک مدرسہ کا کردار انتہائی مشکوک ہے اور یہ مدرسہ اہل تشیع کی اہم دینی درس گاہ جامعہ شہید عارف الحسینی سے 200 میٹر فاصلہ پر موجود ہے، یاد رہے کہ جامعہ عارف الحسینی میں 21 جون 2013ء کو خودکش حملہ ہوا تھا، جس میں 22 نمازی شہید ہوئے تھے۔
پشاور شہر کے وسط میں واقع زرگر آباد میں بھی اس قسم کی دو مساجد موجود ہیں، جہاں تکفیری اثر و رسوخ زیادہ ہے، اس کے علاوہ پشاور کے نواحی علاقوں بڈھ بیر اور کوہاٹ روڑ پر بھی بعض مقامات پر دینی مراکز کے نام پر فرقہ واریت اور انتہاپسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی موجودگی کے باوجود پشاور میں اس قسم کے مدارس و مساجد کا موجود ہونا شہر کے امن و امان پر سوالیہ نشان ہے۔ دو روز قبل مسجد ابوبکر سے خودکش جیکٹس کی برآمدگی اس حوالے سے عین ثبوت ہے۔ پشاور کو دہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے ایسے مدارس کیخلاف فوری طور پر کارروائی کرنا ہوگی اور ایسی مساجد جہاں انتہاپسند اور فرقہ پرست مولوی موجود ہیں، ان کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا۔ پشاور کا امن بحال کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ناگزیر ہے۔