پاراچنار، دھماکے کے بعد قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا
رپورٹ: سید محمد الحسینی
پاراچنار سبزی منڈی دھماکے کے بعد یہاں کے عوام کی اکثریت کی نظریں اب قومی یگانگت اور اتحاد پر مرکوز ہیں۔ اس حوالے سے عوامی مقامات، بسوں، گاڑیوں اور دیگر اہم عوامی مجالس میں لوگ ڈنکے کی چوٹ پر قومی یگانگت، اتحاد اور اتفاق کی بات کرتے ہیں۔ لوگوں میں ماضی کے برعکس آجکل باہمی اتحاد کی خواہش ظاہر کی جا رہی ہے۔ دراصل سبزی منڈی دھماکے سے کچھ عرصہ قبل، اسلحہ جمع کرنے پر مبنی حکومتی فرمان کے بعد، عوام خصوصاً قومی رہنماؤں بالاخص علمائے کرام میں یہ لہر تیزی سے دوڑتی رہی ہے کہ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تمام قومی امور کو قومی اتفاق رائے سے حل کرانے کی کوشش کی جائے۔ اس حوالے سے اگرچہ کئی عملی مظاہرے بھی کئے جاچکے ہیں۔ پاراچنار میں موجود مذھبی و سیاسی تنظیموں اور سیاسی شخصیات کے آپس میں، نیز ان سب کی مرکزی انجمن حسینیہ بالخصوص مرکزی جامع مسجد کے پیش امام جناب شیخ فدا حسین مظاہری کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں، جن میں قومی ایشوز کو متفقہ طور پر آگے بڑھانے کے حوالے سے کافی حد تک اتفاق رائے پایا گیا ہے۔ عوام کی اس وقت یہ دلی خواہش ہے کہ ماضی کے اختلافات کو ختم اور پورے علاقے میں اتفاق، اتحاد اور یگانگت کی فضا قائم کی جائے۔ اس حوالے سے اسلام ٹائمز نے قومی تنظیموں کے رہنماؤں نیز دیگر سیاسی اور سماجی شخصیات کی الگ الگ رائے لی ہے، جسے نذر قارئین کر رہے ہیں۔
انصار الحسین کے رہنما مولانا زاہد حسین سے کرم کی موجودہ صورتحال خصوصاً اتحاد کی ضرورت پر بات کی گئی تو انکا کہنا تھا کہ اہلیان کرم موجودہ صورتحال میں نفاق کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔ خصوصاً جبکہ اہلیان کرم پر طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی اور بالخصوص داعش کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ لہذا اہلیان کرم کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے مختلف علماء سے اس حوالے سے ملاقاتیں کی ہیں اور اس حوالے سے انہیں درخواست کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پیش امام شیخ فدا حسین مظاہری تمام اہلیان کرم کے لئے قابل قبول ہیں۔ سب اقوام کا ان پر مکمل اعتماد ہے۔
کرم ٹیچرز یونین کے سابق صدر سید زاہد حسین کاظمی سے جب اس حوالے سے بات کی گئی تو انہوں نے اپنے موقف کا اظہار یوں کیا: قرآن مجید اور احادیث کا تو ہمیں اس قدر علم نہیں کہ ہم اتحاد کے موضوع پر سیر حاصل بات کرسکیں۔ تاہم یہ آیت تو سب ہی جانتے ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ چنانچہ ان باتوں کا سب سے زیادہ علم علمائے کرام ہی کو ہے۔ لہذا عوام کو عموماً جبکہ علمائے کرام کو خصوصاً اتحاد کا پاس رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تین چار سال تک کرم ایجنسی کے طوری بنگش قبائل کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا، وہ سارے کا سارا ہمارے باہمی اختلافات کا نتیجہ تھا۔
تحریک حسینی کے سابق صدر محمد تقی علیزئی نے کہا کہ آیات قرآن، احادیث نبوی (ص)، فرامین ائمہ اطہار (ع) سب کے سب اتحاد کے حق میں ہیں۔ ان میں کہیں بھی آپکو نفاق اور ناچاقی کی بات نظر نہیں آئے گی۔ جب ایسا ہے تو نفاق کی بات کرنے والوں پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ وہ واجب الاطاعت ہستیوں کے فرامین کی جگہ ان افراد کی پیروری کرتے ہیں، جن کی امیدیں اور مفادات نفاق سے وابستہ ہیں۔ سید محمد شیرازی نے اس حوالے سے کہا کہ بڑے عرصہ بعد کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں جو کہ نہایت ہی خوش آئند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشران اور ذمہ داران کو چاہئے کہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ ماسٹر رشید علی غنڈیخیل کا کہنا تھا کہ ہم اتحاد کے لئے اپنا سر کٹائیں گے۔ اس حوالے سے معزز علماء اور ذمہ دار قومی مشران جو فیصلہ کریں گے، انہیں دل و جاں سے قبول کیا جائے گا۔
سابق سینیٹر اور تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی علامہ سید عابد حسین الحسینی کا کہنا تھا کہ قومی اتحاد کے لئے ہر کوشش کو گلے سے لگائیں گے، تاہم اتحاد کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ کوئی ایک بندہ پوری قوم پر اپنی مرضی کچھ اس انداز میں مسلط کرنا چاہے کہ کسی کو اپنا موقف بیان کرنے کی اجازت تک نہ ہو اور یہ کہ سب کو اس پر خاموشی اختیار کرنا مطلوب ہو، تو اس کو اتحاد قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ اسے ایک نئے نفاق کے لئے اتحاد کا نام دیا جانا چاہئے۔ بہر صورت ہم قوم کے حق میں ہر مثبت اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قومی رہنما بشمول علامہ فدا حسین مظاہری کے، کسی بھی قومی مسئلے کے لئے قیام کریں تو ہم انکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔
ایم ڈبلیو ایم کے مقامی سیکرٹری جنرل شبیر حسین ساجدی کا کہنا تھا کہ قومی اتحاد کی جتنی آج ضرورت ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ آجکل سرکار کی جانب سے اسلحہ جمع کرنے کی جو باتیں ہو رہی ہیں، وہ نہایت ہی نامناسب ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اسلحہ جمع کرانا اہلیان کرم کے لئے چند وجوہات کی بنا پر ناممکن ہے۔ وہ یوں کہ ہمارے چاروں طرف ہمارے قبائلی حریف موجود ہیں، جو ہر وقت ہماری نابودی کی فکر میں رہتے ہیں۔ انکے علاوہ ہمارا علاقہ قومی اور بین الاقوامی دہشتگردوں کی آماجگاہ ہے۔ ان دہشتگردوں کی مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ بالعموم جبکہ ہمارے ساتھ خصوصی ضد ہے۔ وہ ہمیں غیر مسلح پاکر ایک دن کی بھی مہلت نہیں دیں گے، جبکہ ہمارا دفاع کوئی بھی نہیں کرے گا۔ اپنا دفاع ہم نے ہمیشہ خود ہی کیا ہے۔ لہذا اپنا اسلحہ بغی
ر کسی ضمانت کے حوالے کرنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ امن کی ضمانت کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ امن کی ضمانت کی ایک ہی صورت بن سکتی ہے، وہ یہ کہ ہمارے ارد گرد خصوصاً سرحدی علاقوں کی حفاظت کے لئے طوری ملیشیا بلاکر متعین کی جائے یا اسکے لئے طوری اقوام سے نئی بھرتی کرکے مذکورہ مقامات پر متعین کیا جائے۔
تحریک حسینی کے سابق صدر مولانا منیر حسین کا کہنا تھا کہ اسلحہ جمع کرانے یا نہ کرانے کے حوالے سے ہم نے انجمن حسینیہ، سیکرٹری انجمن حسینیہ نیز اسلام آباد میں اہم شخصیات سے بات چیت کی ہے اور اپنے موقف سے سب کو آگاہ کیا ہے۔ اسلحہ جمع کرانا اہلیان کرم کے لئے بالکل ناممکن بلکہ قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ قومی اتحاد کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اتحاد و اتفاق سے اللہ تعالٰی، رسول خدا اور ائمہ طاہرین خوش ہوتے ہیں۔ جو بھی اتحاد کی مخالفت کرتے ہیں، انکا خدا و رسول (ص) اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ ہم اپنا رشتہ اہلبیت (ع) کے ساتھ ختم کرنے کی جسارت کہاں کر سکتے ہیں۔ جس بات سے ائمہ خوش ہوتے ہوں، ہم اس پر جاں تک نچھاور کرنے کے لئے تیار ہیں۔