ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ شیعہ افراد کے اہلخانہ کا اپنے عزیزوں کی بازیابی کیلئے کراچی پریس کلب پراحتجاج
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) کراچی میں لاپتہ ہونے والے شیعہ جوانوں کے اہلِ خانہ نے کراچی پریس کلب پر احتجاج کیا اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ شیعت نیوز کے مطابق اتوار کی شام کراچی پریس کلب پر پاسبان عزا کے ہمراہ لاپتہ شیعہ جوانوں کے اہل خانہ اکھٹا ہوئے اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ انکے جوان بیٹوں کو ساہ لباس اہلکار اغوا کرکے لے گئے تھے جنکا ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا ، انہوںنے کہاکہ یہ کیسا قانوں ہے کہ زندہ انسان کو غائب کردیا جائے جبکہ اسکا کوئی جرم بھی ثابت نہیںاگر وہ مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا ، گمشدہ افراد کے اہل خانہ نے سادہ لبا س اہلکاروں کو دہشتگردوں سے نسبت دیتے ہوئے کہا کہ جسطرح دہشتگرد شیعہ جوان کو شہر کراچی کی سڑکوں پر قتل کرتے پھر رہے ہیں اسی طرح سادہ لباس میں چھپے سیکورٹی جوانوں کو غائب کرکے ناجانے انکے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ، یہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی اور قانوں کا غلط استعمال ہے انہوںنے وزیراعظم سمیت آرمی چیف سے درخواست کی کہ بے افراد کی کمشدیگی کے حوالےسے فوری نوٹس لیا جائے اور ہمارے پیاروں کا بازیاب کروایا جائے۔
واضح رہے کہ ملک بھر سے تقریباً ایک سو شیعہ مسلمان بشمول علمائے دین غیر قانونی تحویل میں لئے جاچکے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے شیعہ بزنس مین اسد ظہیر کا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس کی تحویل میں ہیں؟ ان کا جرم کیا ہے؟ کراچی ہی سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے علمبردار سول سوسائٹی کے جواں سال رہنما ثمر عباس کو اسلام آباد سے غائب کر دیا گیا ہے۔
کراچی ہی کے نسیم حیدر اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلائے معلٰی کی زیارت سے پاکستان لوٹے تو انہیں غیر قانونی تحویل میں لے لیا گیا۔ کراچی ہی کے ایک اور شادی شدہ فعال شیعہ جوان کے بوڑھے والدین نے پریس کانفرنس کرکے بتایا تھا کہ ان کا بیٹا سولہ مہینے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کی تحویل میں ہے، لیکن نہ اسے کسی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے نہ اہل خانہ کو ملنے کی اجازت ہے۔ صوبہ پنجاب کے شیعہ مسلمانوں کی داستان غم بھی کچھ مختلف نہیں۔
مولانا عقیل خان حصول تعلیم کے لئے مشہد میں قیام پذیر تھے۔ اپنے وطن لوٹے تو بے جرم و خطا غیر قانونی تحویل میں لے لئے گئے۔ ہمارے عزیز دوست ظہیر الدین بابر صاحب بھی ایک عالم دین ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ چنیوٹ کے اختر عمران اور ان کے بھائی وقار حیدر، سرگودھا کے ملک شبیر حسین جوئیہ اور سدھو پورہ فیصل آباد کے راغب عباس سمیت بہت سے شیعہ خواص اور علمائے دین کو بھی غیر قانونی تحویل میں لے کر گم کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ ملزم ہیں تو عدالت میں پیش کیوں نہیں کئے جاتے اور اگر یہ بے گناہ ہیں (جو کہ واقعاً یہ ہیں) تو انہیں رہا کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ پاکستان کی عدلیہ کے بعض ججوں نے اور مقننہ کے ایوان بالا کے چیئرمین رضا ربانی نے ملکی سکیورٹی اداروں کی اس پالیسی پر تنقید بھی کی ہے۔