آزاد کشمیر۔۔۔ یہاں دہشتگردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے
تحریر: نذر حافی
آزاد کشمیر دراصل تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے، یہاں کے لوگ نظریاتی طور پر پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں، رقبے کے لحاظ سے یہ منطقہ ۸۳۳۰۰ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ ریاست 10 اضلاع، 19 تحصیلوں اور 182 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ اس کی آبادی تقریباً پینتالیس لاکھ ہے، آزاد کشمیر کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات ڈاکٹر سید آصف حسین کے مطابق آزاد کشمیر کے 95 فیصد بچے اور 88 فیصد بچیاں سکول جاتی ہیں، جبکہ شرح خواندگی ۷۴ فی صد ہے، جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں پر کسی بھی قسم کی کوئی گینگ، قبائلی سسٹم یا وڈیرہ شاہی بالکل نہیں ہے، لوگ ملک و ملت سے محبت کرتے اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، الیکشن کے موقعوں پر بعض لیڈر برادری ازم کا سہارا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے صرف الیکشن کے دنوں میں برادری ازم پُر رنگ ہو جاتا ہے، جو کہ الیکشن کے فوراً بعد پھیکا پڑ جاتا ہے، لوگ ایک دوسرے سے عملاً محبت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کرتے ہیں، مختلف برادریوں کے لوگ باہمی دوستی، محبت اور اخوت کے ساتھ جیتے ہیں، مشکلات میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور شادی بیاہ میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
لہذا اگر کہیں پر خدانخواستہ کوئی لڑائی جھگڑا ہو جائے یا کوئی قتل ہو جائے تو یہاں کا معاشرہ اجتماعی طور پر ردعمل دکھاتا ہے، آزاد کشمیر میں مذہبی منافرت قطعاً نہیں پائی جاتی، لوگوں کے بچے بلا تعصب مساجد میں جاکر قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، سکولوں میں قطعاً ماحول فرقہ واریت سے پاک ہے، حتٰی کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی مذہبی منافرت نہیں پائی جاتی۔ لوگوں میں نہ صرف یہ کہ مذہبی منافرت نہیں پائی جاتی، بلکہ لوگوں کی شعوری سطح اتنی بلند ہے کہ لوگ دہشت گردوں اور دہشت گردی سے نفرت کرتے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مذہبی منافرت کے سلسلے میں پہلی مرتبہ 2009ء میں 9 محرم الحرام کی شام کو مظفر آباد کی امام بارگاہ پیر علم شاہ بخاری میں ایک خودکش دھماکہ ہوا تھا اور اب چند روز قبل مظفر آباد کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس آصف درانی نے تین نقاب پوش ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں 2009ء میں 9 محرم الحرام کی شام کو امام بارگاہ پیر علم شاہ بخاری میں ہونے والے خودکش حملے میں ملوث ہیں، لیکن گرفتار شدگان کے والدین نے ۱۲ فروری ۲۰۱۷ء کو پریس کانفرنس کرکے دہشت گردی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
یہاں کے لوگ تحریک طالبان پاکستان یا پاکستان میں پائے جانے والے دیگر دہشت گرد ٹولوں کی طرح دہشت گردی پر فخر نہیں کرتے اور نہ ہی دہشت گردوں کے سہولت کار بنتے ہیں بلکہ دہشت گردی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ نو اپریل ۲۰۱۵ء کو آزاد کشمیر حکومت نے 22 افراد کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے تھے، جن میں سے مندرجہ ذیل 20 کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ آفتاب شفیع، مولوی عبدالخالق، افتخار عرف ادریس مولوی، وقاص، حافظ کاشف، شفیع معاویہ، مولوی عبد الغفور، مولوی اختر، شہزان رشید، افتخار مجید، محمد الیاس، ساجد اعوان، محمد ارشد، انصار، نذیر الاسلام، محمد کلیم، غلام مصطفیٰ، توقیر عباسی، اسرار، محمد یاسر اور دو کا تعلق پنجاب سے ہے، جو کہ آزاد کشمیر میں رہائشی ہیں، ان کے نام عصمت اللہ معاویہ اور مرزا خان ہیں۔ دو فروری 2017ء کو پونچھ کے ایس ایس پی میر عابد نے ایک ملزم کاشف حنیف کو راولا کوٹ کے نواح میں داتوٹ سے گرفتار کیا ہے اور ان کے بقول یہ ملزم تحریک طالبان کشمیر سے تعلق رکھتا ہے۔
آزاد کشمیر میں دینی مدارس، مساجد اور جہادی تنظیموں کا مضبوط نیٹ ورک بچھا ہوا ہے۔ شام اور عراق سے بھاگنے والے دہشت گرد پاکستان کے بعد آزاد کشمیر میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کی بدولت ابھی آزاد کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ پیش آیا ہے، جس میں آزاد جموں و کشمیر مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے سیکرٹری جنرل علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کر دیا ہے۔ حملہ آور نے بظاہر ایک فرقے کے مذہبی رہنما پر حملہ کیا ہے، لیکن آزاد کشمیر کے سماجی مزاج کے مطابق یہ حملہ ہر کشمیری پر حملہ ہے اور اس حملے کے بعد آزاد کشمیر کے شیعہ اور سنی سب اداس ہیں، یہاں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد کسی کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔ اگریہاں کے لوگ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جہادی کیمپوں کے تربیت یافتہ لوگوں نے اب پاکستان کی طرح کشمیریوں کو بھی قتل کرنا شروع کر دیا ہے تو آزاد کشمیر میں مقامی آبادیوں اور مجاہدین کے کیمپوں کے درمیان تناو اور کشیدگی پیدا ہو جائے گی، جس کا سارا نقصان تحریک آزادی کو پہنچے گا۔
اس کے علاوہ خود مختاری کی تحریکیں اور تنظیمیں بھی اس واقعے کو اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت آزاد کشمیر کے لوگوں کو پاکستان سے متنفر کرنے کے لئے اسی فرقہ واریت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کے بیس کیمپ کے طور پر دیکھا جائے اور اس میں مخلص مجاہدین کو اسٹریٹجک سرمایہ سمجھتے ہوئے فرقہ واریت سے دور رکھا جائے۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرکے لوگو
ں کو یہ یقین دلایا جائے کہ مجاہدین کے کیمپ دہشت گردوں سے پاک ہیں اور ان کے کیمپ پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کے آشیانے نہیں ہیں۔ تحریک آزادی کے تحفظ کے لئے حکومت اور عوام کو ملکر یہ ثبوت دینا ہوگا کہ یہاں دہشت گردوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔