مدارس کی نگرانی، انسداد دہشتگردی ایکٹ کے شیڈول میں اضافے کی تجویز
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی تجاویز پر سندھ حکومت نے وفاقی حکومت سے مشتبہ مدارس کی نگرانی کیلئے انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے پانچویں اور چھٹے شیڈول کو شامل کرنے کا کہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے پہلی مرتبہ مذکورہ معاملے کو وفاق کے ساتھ اٹھایا ہے جس کا مقصد اے ٹی اے 1997ء کے قانون میں نئے قواعد متعارف کرانا ہے تاکہ مشتبہ مدارس کی نگرانی کی جاسکے جیسا کہ قانون میں صرف چار شیڈول ہیں۔ آئی جی سندھ نے ان خیالات کا اظہار سخی پیر تھانے میں عوام کے لیے پہلے رپورٹنگ روم کی سہولت کا افتتاح کرنے کی تقریب میں شریک پولیس افسران اور تاجر نمائندوں سے خطاب کے دوران کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اے ٹی اے میں صرف چار شیڈول موجود ہیں جو فرد واحد کے دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے ہیں، اس قانون میں پانچویں اور چھٹے شیڈول کے اضافے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کو فروغ دینے والے یا اس میں شامل اداروں اور مدارس کی نگرانی کی جاسکے’۔
انھوں نے کہا کہ سہون دھماکے کے بعد ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے صوبے کے تمام مزاروں کا آڈٹ کیا اور 9 مزاروں کو درجہ بندی کے مطابق ‘اے’، کچھ مزاروں کو ‘بی’ اور دیگر کو ‘عام’ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ”درجہ بندی ‘اے’ میں شامل مزارات کو اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی فراہم کی جائے گی”۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ کچھ مزارات ایسے ہیں جہاں کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام، قطاروں کے نظام کے قیام، کچھ داخلی راستوں کو بند کرنے یا ان مزارات کی دیواروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کی جسمانی تلاشی کیلئے خاتون پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا جائے گا اور وہ مقامی ہوں گی تاکہ انھیں ٹرانسفر کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس موقع پر جب ان سے سندھ میں داعش کی جڑیں مضبوط ہونے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘انٹرنیٹ پر دی جانے والی اطلاعات کو مشکل سے قابو کیا جاسکتا ہے، اس لیے ایسے کچھ نوجوان موجود ہیں جو شدت پسند تنظیم کی تعلیمات سے متاثر ہیں لیکن کالعدم تنظیم کی پاکستان یا سندھ میں جڑیں مضبوط نہیں ہیں، تاہم ان کی تعلیمات سے متاثر لوگ یہاں موجود ہیں اور وہ دہشت گردوں کو سہولت فراہم کر رہے ہیں ‘۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان پولیس کا مشترکہ گشت بہت مشکل ہے کیونکہ دونوں صوبوں کی سرحد انتہائی غیر محفوظ اور پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے۔انھوں نے کہا کہ سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشتگردی کے اے آئی جی نے اپنے صوبہ بلوچستان کے ہم منصب سے ملاقات کی ہے، ‘میں بلوچستان کے آئی جی سے رابطے میں ہوں اور ہم نے حال ہی میں ہونی والی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹس ایک دوسرے سے شیئر کی ہیں’۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ ڈی آئی جی یا ایس ایس پی حیدرآباد بہت جلد میڈیا کو نورین لغاری کے کیس میں پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔اس سے قبل انھوں نے شرکاء سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ رویوں میں تبدیلی لائی جائے، ان کا کہنا تھا کہ اسٹاف کے رویے کی مستقل بنیادوں پر نگرانی کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹنگ روم تھانے سے بالکل علیحدہ ہوں گے اور تمام غیر قابل دست اندازی معاملات جیسے کہ کردار کا سرٹیفکیٹ، غیر قابل دست اندازی رپورٹس کی رجسٹریشن اور دیگر تنازعات کے حل وغیرہ کے حوالے سے سہولیات فراہم کریں گے۔ آئی جی کا کہنا تھا کہ یہ تھانہ کلچر میں تبدیلی کیلئے پہلا قدم ہے، ساتھ ہی انھوں نے اُمید کا اظہار کیا کہ اس کی مدد سے پولیس اور عام عوام کے درمیان موجود دوری کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔اس موقع پر ڈی آئی جی خادم رند نے بتایا کہ حیدرآباد میں 50 رپورٹنگ روم قائم کیے گئے ہیں، جہاں تعلیم یافتہ اور مہذب افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔