پشاور میں افغان طالبان رہنمائوں کو داعش نے قتل کروایا
شیعہ نیوز ( پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ ) افغان عسکریت پسندوں نےدعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کے سینیئر رہنما کو داعش نے پشاور میں قتل کر دیا ہے۔ افغان طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ مولوی داؤد اور دیگر دو افراد کو پاکستان کے اندر مارا گیا جبکہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مولوی داؤد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔ رائٹرز کے مطابق داعش نے کسی کا نام لیے بغیر طالبان رہنما کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی تھی جبکہ پشاور میں گزشتہ تین ہفتوں کے دوران تین افغانیوں اور ایک پاکستانی مولویوں پر کم ازکم چار حملے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں 6 افراد جان سے گئے تھے۔ کیپٹل سٹی پولیس نے تسلیم کیا کہ پاکستانی مولانا کے خلاف ہونے والا حملہ داعش کا تھا، دو روز قبل چمکنی پولیس کی حدود توحید آباد کے علاقے میں افغان مولانا کو ایک گاڑی میں نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت مولوی سیف اللہ اور مولوی خاکسار کے نام سے ہوئی اور ان کے ڈرائیور حبیب اللہ زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے افغان شہری کے قتل کی تصدیق کی لیکن ان میں سے کسی کی شناخت مولوی داؤد کے نام سے نہیں ہوئی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر پولیس کا کہنا تھا کہ پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے اور حملے کی وجوہات تاحال واضح نہیں ہیں۔ خیال رہے کہ 20 اپریل کو قاضی کلیا کے علاقے میں نامعلوم حملہ آور مسجد میں داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کی جس کے نتیجے میں عبدالقیوم اور اسد جاں بحق جبکہ چار افراد زخمی ہو گئے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کا نشانہ مقامی عالم دین مفتی ندیم تھے جو فائرنگ سے زخمی ہو گئے ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ چونکہ مفتی ندیم داعش کے خلاف کھل کر بات کرتے تھے اس لیے ان پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مفتی ندیم کو افغان ٹیلی فون نمبرز سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور انھوں نے پولیس کو ان دھمکیوں سے آگاہ کیا تھا جبکہ انھیں اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اسی دوران یکہ توت اور ارمر پولیس کی حدود میں دو دیگر افغان عالم دین کو نشانہ بنایا گیا جہاں 19 اپریل کو ارمر کے علاقے میں مولوی جلیل جبکہ 14 اپریل کو مولانا محمد حامد عرف قار بہار کو یکہ توت پولیس اسٹیشن کی حدود میں قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے افغان مولیوں کے خلاف ہونے والے تین حملوں کی ایف آئی آر درج کر دی ہے جبکہ پاکستانی عالم دین پر حملہ ایک دہشت گردی کا واقعہ تصور کیا جا رہا ہے۔