مضامین

معروف قوال امجد صابری کو دنیا سے بچھڑے ایک سال مکمل

رپورٹ: ایس ایم عابدی

معروف قوال امجد صابری کو دنیا سے بچھڑے ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ پیر کو ان کی یاد میں حملے کی جگہ شمعیں اور چراغ روشن کئے گئے۔ شہید قوال امجد صابری کی برسی کے موقع پر ان کے اہل خانہ اور اہل علاقہ کی طرف سے لیاقت آباد میں تقریب کا انعقاد کیا گیا اور امجد صابری کی شہادت کے مقام پر شمعیں اور چراغ روشن کئے گئے۔ تقریب میں امجد صابری کے بھائی فرید صابری، بیٹے اور اہل خانہ، پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل، حلیم عادل شیخ اور دیگر نے شرکت کی۔ امجد صابری کے بھائی فرید صابری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ امجد صابری کے اصل قاتل ابھی تک نہیں پکڑے گئے، قاتلوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کیا جائے اور کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے۔ امجد صابری کے بیٹے نے کہا کہ وہ اپنے والد کا چراغ بنیں گے اور ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ یکم دسمبر 1976ء کو معروف اور مشہور قوال غلام فرید صابری کے گھر امجد فرید کی پیدائش ہوئی، امجد فرید صابری پانچ بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ والد سے قوالی کی گائیکی کے اسرار اور رموز سیکھے اور کئی ملکوں میں ان کے ساتھ صوفی کلام کو پیش کیا۔ والد کے انتقال کے بعد صابری گھرانے کے کام کو آگے بڑھانے کی تمام تر ذمہ داری امجد صابری نے خوب نبھائی اور خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کا بھی نام روشن کیا۔

امجد فرید صابری نے قوالی کو اس قدر مقبول بنایا کہ جدید دور میں بھی لوگ عارفانہ کلام کو شوق سے سنتے رہے۔ امجد صابری نے والد فرید صابری کی جدائی کے بعد ان کا نام زندہ رکھنے والے کیلئے والد کی وراثت کا حق ادا کیا اور قوالی میں نام کمایا۔ امجد صابری نے بچپن سے ہی گھر میں تصوف کو پروان چڑھتے دیکھا۔ فن قوالی میں اپنے والد سے تربیت حاصل کرتے ہوئے محض آٹھ سال کی عمر سے ہی گائیکی کا آغاز کر دیا تھا۔ اللہ اور اس کے اولیاء سے محبت نے امجد صابری کی آواز میں ایسی مٹھاس اور سرور بھر دیا کہ سننے والے آواز کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ امجد صابری نے پاکستان اور بھارت میں کئی کلام پڑھے، انہیں اب تک کئی ایوارڈز کے ساتھ بہترین پرفارمنس کا ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس بھی ملا۔ امجد صابری کہتے تھے کہ تاجدار حرم جب بھی پڑھی آنکھوں میں آنسو آئے۔ یہ پڑھتے ہوئے انہیں شدت سے والد کی یاد آئی۔ فن قوالی میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے امجد صابری اپنی آواز سے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ امجد فرید صابری کو 16 رمضان المبارک 22 جون 2016ء کو دہشت گردوں نے لیاقت آباد میں نشانہ بنایا۔ امجد صابری قوال ناظم آباد کے پاپوش نگر قبرستان میں اپنے والد اور دادا کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں۔

امجد صابری کا جرم کیا تھا؟
یہ سب لوگ جیسے جیسے اپنے پیشے میں نام کماتے ہیں، ویسے ویسے ان کے کچھ مخالف اور دشمن بھی بنتے جاتے ہیں اور کسی دن کسی موڑ پر وہ دشمنی ان کی جان لے لیتی ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مسلک، فرقے، گروہ، زبان اور ان سب چیزوں سے ہٹ کر اپنی پہچان بناتے ہیں، جو پورے معاشرے کی ایک خاص پہچان بنتے ہیں۔ ان کی کسی سے دشمنی ہوتی ہے نہ رنجش، کسی سے جھگڑا ہوتا ہے، نہ یہ کسی فساد کی وجہ ہوتے ہیں۔ یہ محبت کا پیغام دیتے ہیں، لوگوں کو ہنسنا سکھاتے ہیں، خود تکلیف میں ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی خاطر اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ امجد صابری بھی انہیں لوگوں میں سے ایک تھے، ان سے ملنے والا ہر شخص یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ اخلاق، شفقت اور محبت کی ایک کھلی کتاب تھے۔ وہ نسب سے تو دنیا کے مشہور ترین قوال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، مگر ذاتی زندگی میں انکساری، ملنساری اور خوش مزاجی ہی ان کی پہچان تھی۔ ہر وقت مسکراتے ہوئے ملنا، وطن سے سے محبت، رسول ﷺ سے عشق، آلِ رسول ﷺ کی عقیدت اور اپنے فن سے بے حد لگاؤ ہی شاید امجد صابری کا جرم بن گیا۔

امجد صابری کو مجالس عزا میں شرکت کرنے پر قتل کیا
کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ پولیس کے ہاتھوں گرفتار کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی (نعیم بخاری) گروپ کے 2 دہشت گردوں عاصم عرف احمد عرف کیپری عرف ماموں عرف مصطفٰی نے انٹروگیشن رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ماہ رمضان میں میری ملاقات اسحاق عرف بوبی سے ایک جنرل اسٹور کی دکان پر ہوئی، اس دوران امجد صابری کے بارے میں بات ہونے لگی، اسحاق بوبی نے پوچھا کہ امجد صابری کیسا بندہ ہے، میں نے نیٹ پر دیکھا ہے کہ آج کل یہ بہت نوحے پڑھ رہا ہے اور اہل تشیع کی مجالس میں بھی جاتا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ اسحاق نے نیٹ میں چیک کیا کہ امجد صابری ٹی وی پر خرم ذکی کے ہمراہ صحابہ کرام کے خلاف بات کر رہا تھا اور اس کے علاوہ محرم میں پورا شیعہ ہو جاتا ہے، بات چیت کے دوران اس کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی اور بھرپور ریکی کے بعد امجد صابری کو قتل کر دیا۔

شہید امجد صابری کے قتل نے جہاں سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے، وہیں یہ بھی تشویش پیدا کر دی ہے کہ پاکستان میں جو بھی اہل بیت (ع) کا نام لیوا ہے، وہ اس ملک میں محفوظ نہیں، چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ، سب دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ایک طرف تو ملک میں عدم برداشت کی یہ صورتحال ہے کہ محبتیں بانٹنے والا امجد صابری دن دہاڑے شہید کر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف ہمارے ریاستی ادارے تکفیری دہشت گردوں کی سرپرستی سے باز نہیں آرہے۔ عوام یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ آخر کب تک ہمارے ریاستی ادارے ملکی مفاد کے نام پر اپنے ہی ملک کی عوام کا قتل عام کرنے والے تکفیری دہشت گرد
وں کو پالتے رہیں گے، کیا یہ پاکستان اسی لئِے حاصل کیا گیا تھا کہ اسے دہشت گردوں کی جنت بنا دیا جائے، ہرگز نہیں بلکہ یہ پاکستان ان مظلوموں کی میراث ہے کہ جنہوں نے اپنے فرزندوں کی قربانیاں تو پیش کی ہیں، لیکن اس پاک وطن سے غداری ہرگز نہیں کی۔ اب بھی وقت ہے کہ ریاستی ستون سمجھے جانے والے ادارے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں، ورنہ آنے والی نسلیں ان کو بھی ظالم و جابر کے عنوان سے یاد کریں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button