مشترکہ القدس ریلی کی راہ میں رکاوٹ کون؟
تحریر: وفا عباس سابق ڈویژنل صدر آئی ایس او راولپنڈی
آئی ایس او پاکستان پر یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی لطف و کرم ہے کہ اس نے ہمیشہ مظلومین کے حق میں صدائے احتجاج بلند کیا، چاہے کشمیر کے مظلومین ہوں، یمن کے ہوں یا پھر فلسطین کے مظلومین، ہمیشہ آئی ایس او کے پاک باز جوانوں نے صف اول میں کھڑے ہوکر اپنا کردار ادا کیا ہے، یہ شرف بھی الحمد اللہ آئی ایس او پاکستان کے پاس ہی ہے جس نے امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان میں قدس کی آزادی کی تحریک کی بنیاد رکھی اور اس تحریک کو اپنے خون سے سینچا ہے، ایک ہی واقعے میں 67 شہداء کے قربانی دینے کے باوجود بھی اس تنظیم نے مظلومین کی حمایت میں بلند ہونے والے عَلم کو گرنے نہیں دیا۔ 3 ستمبر 2010ء کو کوئٹہ شہر میں ہونے والے خود کش حملہ ہو یا پھر 2012ء میں شہر قائد میں کراچی یونیورسٹی کی بس پر حملہ یا پھر اس سے اگلے ہی سال محمود آباد سے آنے والی بس پر تکفیریوں کا حملہ، تاریخ گواہ ہے کہ قدس کی آزادی کی خاطر امامیہ جوانوں نے نہ صرف اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور بلکہ امام خمینی راحل کے حکم پر مظلوم فلسطینیوں کی آواز کو ملک کے گوش و کنار میں بہاہم پہنچانے کیلئے ہمیشہ مرکزی کردار ادا کیا اور کر رہی ہے۔الحمد اللہ قبلہ اول کی آزادی کیلئے ہر سال آئی ایس او پاکستان ملک بھر میں ریلیاں اور اجتماعات منعقد کرتی ہے اور اپنے بل بوتے پر مظلومین کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتی رہتی ہے اور شہدائے القدس سے عہد کرتی ہے کہ ان کی راہ کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آئی ایس او پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مظلوموں کے پیغام کو پھیلانے اور بڑھانے کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ یہی وجہ بنی کہ آئی ایس او نے اپنے نام کے بجائے ’’تحریک آزادی القدس‘‘ لانچ کی اور اس کا مقصد یہی رکھا کہ اس تحریک میں شیعہ سنی سب آسکیں اور مظلوموں کی یہ آواز ہر پاکستانی کے لب پر آسکے۔ آئی ایس او پاکستان ہرسال ملک بھر میں ہونے والی ریلیوں میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کو مدعا کرتی ہے اور ان سے خطابات بھی کرواتی ہے جو ریکارڈکا حصہ ہے اور اس بات کا عین ثبوت ہے کہ اس کے پیش نظر قبلہ آول کی آزادی زیادہ مہم ہے۔کہا جاتا ہے کہ جھوٹ تمام گناہوں کی ماں ہے اور قرآن کے مطابق جھوٹے پہ خدا کی لعنت ہوتی ہے۔ لہذا خیال رکھنا چاہیے کہ کہی ہم کسی کو خوش کرنے کے چکر میں یا پھر کریڈٹ لینے کے لئے جھوٹ بول کر خدا کی لعنت کے مستحق قرار نہ پائیں اور کوشش کریں کہ اپنی گفتگو میں جھوٹ کا استعمال نہ کریں کیونکہ یہ کریڈٹ جو آپکو دنیا میں اس جھوٹ کے زریعے ملے گا یہ عارضی ہو گا اور آخرت میں آپکو دوزخ کی آگ میں خوب جلائے گا۔ دوسری بات جب کوئی فرد تجزیہ کرے تو ضروری ہے کہ غیرجانبداری کے ساتھ تجزیہ کرے وگرنہ تجزیہ میں جھوٹ کے ساتھ تعصب کا عنصر بھی شامل ہو جائے گا۔ ایک اور اہم بات جب آپ تجزیہ کریں تو درست حقائق اور اعداد و شمار کے زریعے اپنی بات میں وزن پیدا کریں۔ خیر بات کرنا چاہ رہا تھا اسلام آباد میں ہونے والی مشترکہ القدس ریلی کے حوالے سے کچھ حقائق کی تو سوچا پہلے ایک برادر جنہوں نے اس پورے معاملے پر ایک تحریر لکھی اس میں انہوں نے بہت زیادہ باتیں حقائق کے برعکس لکھیں، موصوف نے اپنی تحریر میں خود تسلیم کیا ہے کہ وہ ایک اجلاس میں شریک ہوئے اور اسی ایک اجلاس کی کارروائی کی بنا پر انہوں نے حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا اور اپنی تنظیم کو بچانے کے چکر میں ایک ایسی تنظیم پر الزامات عائد کرنے کی کوشش کی جس نے یوم القدس کے حوالے سے ہر طرح کی قربانی دینے کی پیشکش کی جس کا اظہار جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے ملی یکجہتی کونسل کے تیسرے اجلاس میں بھی کیا۔ اس سال ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے اسلام آباد میں مشترکہ ریلی نکالنے کی تجویز سامنے آئی تو آئی ایس او پاکستان جو کونسل کا حصہ نہیں ہے، نے آگے بڑھ کر اسے ویلکم کیا، لیکن افسوس کہ ایک تنظیم کی وجہ سے یہ ریلی اچانک منسوخ کردی گئی اور اب اسی تنظیم کی جانب سے اس مشترکہ ریلی نہ ہونے کا الزام آئی ایس او پر تھوپنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ اس لئے ضروری سمجھا کہ اس پر تفصیل سے بات کی جائے اور قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ اس تحریر کا قطعاً مقصد کسی پر الزام لگانا نہیں ہے بلکہ آئی ایس او پر لگنے والے بےبنیاد الزام پر اصل حقائق کو واضح کرنا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ ملی یکجہتی کونسل کے مشترکہ القدس ریلی نکالنے کی تجویز کے حوالے سے، تو اس حوالے سے پہلا اجلاس ملی یکجہتی کونسل کے دفتر میں بلایا گیا جس میں آئی ایس او کو بھی مدعا کیا گیا، اس اجلاس میں سوائے اسلامی تحریک کے تمام تنظیموں اور مرکزی رہنماوں نے شرکت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اسلامی تحریک کے جس رہنما نے شریک ہونا تھا وہ علالت کے باعث شریک نہیں ہوسکے۔ اس اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ ملی یکجہتی کونسل چاہتی ہے کہ اس سال کونسل کے زیراہتمام مشترکہ القدس ریلی نکالی جائے جسے شرکاء نے بیحد سراہا۔ تاہم آئی ایس او نے اپنی تجویز پیش کی کہ آئی ایس او تین دہائیوں سے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کیلئے ریلیاں نکال رہی ہے اور آئی ایس او نے اسے اپنے نام کے بجائےاب تحریک آزادی قدس کے تحت پورے ملک میں ریلیاں منعقد کرتی ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس تحریک کے سائے میں شیعہ سنی سب ملکر مظلوموں کی آواز کو بلند کرسکیں۔ ہم چاہتے کہ تحریک آزادی قدس کے عنوان سے ہی اس ریلی کو م
نعقد ہونا چاہیے اور اس میں سب تنظیموں کے نام آجائیں اور ملی یکجہتی کونسل کے بزرگان اس ریلی کو لیڈ کریں۔ اس رائے کو کونسل کے اجلاس میں موجود تمام احباب نےسراہا اور اجلاس میں طے پایا کہ القدس ریلی کا روٹ چائنہ چوک سے سعودی پاک ٹاور ہوگا، آئی ایس او، ایم ڈبلیو ایم اور ایس یو سی کی ریلیاں اپنے روٹ سے آتے ہوئے چائنہ چوک پہنچیں گی جہاں جماعت اسلامی اور جماعت اہل حرم کی ریلی کے شرکاء بھی مل جائیں گے یوں یہ مشترکہ ریلی سعودی پاک ٹاور پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوگی اور وہاں اقوام متحدہ کے دفتر میں مشترکہ یادداشت پیش کی جائے گی۔ اجلاس میں اس فیصلے کے بعد طے پایا کہ اگلے اجلاس میں کمیٹیاں اور انتظامات کو حتمی شکل دی جائے گی اور یوں یہ اجلاس برخواست ہوگیا۔7 جون کو انتظامات کا جائزہ لینے اور کمیٹیاں بنانے کیلئے ایم ڈبلیو ایم کے آفس میں اجلاس بلایا گیا جس میں اسلامی تحریک سمیت تمام تنظیموں کے مقامی رہنماوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں اسلامی تحریک کی جانب سے تقریباً 10 سے 12 نمائندگان نے شرکت کی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ریلی تحریک آزادی القدس کے بجائے ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام ہی ہوگی اور روٹ چائنہ چوک سے پاک سعودی ٹاور کے بجائے ڈی چوک کی طرف ہوگا، کیوں کہ اقوام متحدہ کا دفتر اب تبدیل ہوگیا ہے۔ اس پر آئی ایس او پاکستان کے نمائندگان نے اپنے تحفظ کا کھل کر اظہار کیا اور کہا کہ آئی ایس او القدس ریلی کی اہم اسٹیک ہولڈر ہے تو یہ وہ پوچھنے میں حق باجانب ہے کہ گزشتہ اجلاس میں روٹ اور نام طے پا گیا تھا اوراب اچانک کیوں تبدیل کیا جا رہا ہے، اس پر فضاء کچھ دیر کیلئے تلخ ضرور ہوئی لیکن ثاقب اکبر صاحب نے افطار کے وقت آئی ایس او کی اس تجویز پر اتفاق کرلیا کہ آئی ایس او، اسلامی تحریک اور ملی یکجہتی کونسل الگ سے اجلاس کرکے جزیات کو طے کریں گے، یوں یہ اجلاس اختتام پذیر ہوگیا۔ تاہم اس اجلاس میں اسلامی تحریک کی جانب سے کسی فرد نے بھی ریلی کے روٹ پر کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی کوئی اعتراض اٹھایا۔یوں دو دن بعد جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم کے گھر پر ایک اجلاس بلایا گیا جس میں آئی ایس او کی جانب سے سابق مرکزی صدر حسن زیدی، اسلامی تحریک کی جانب سے علامہ عارف واحدی اور کونسل کے رہنما ثاقب اکبر اور لیاقت بلوچ اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں علامہ عارف واحدی نے زور دیا کہ ریلی آپبارہ سے ہی برآمد کی جائے جو سرینا چوک پہنچے، لیکن آئی ایس او کے دوستوں کا کہنا تھا کہ کیوں کہ روٹ پہلے سے طے ہوچکا ہے، اس پر اسلامی تحریک کے ایک رہنما نے کہا کہ ڈرائنگ روم میں فیصلے کیے گئے ہیں اس لئے وہ اس پر معترض ہیں، اس پر حسن زیدی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں آپ کی جانب سے پندرہ افراد شریک تھے، اس اجلاس میں تو کسی ایک بندے نے بھی روٹ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، اس لئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ فیصلہ ڈرائینگ روم ہوا۔ دوسرا یہ روٹ خود کونسل نے طے کیا ہے۔اس اجلاس میں لیاقت بلوچ نے رائے دی کہ اسلامی تحریک آپبارہ سے سرینہ پہنچے اور آئی ایس او کے دوست ڈی چوک سے سرینہ پہنچیں وہاں سب مل جائیں گے۔ اس تجویز پر آئی ایس او کے ساتھیوں نے اتفاق کرلیا۔ آئی ایس او کے دوستوں نے اس بات پر بھی گرین سگنل دیدیا کہ تحریک آزادی قدس کے بجائے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ہونے والی مشترکہ ریلی پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم حتمی فیصلے سے اگلے روز نماز ظہر سے پہلے آگاہ کردیا جائے گا، اس کا مقصد تنظیم کے دیگر ساتھیوں کو اعتماد میں لینا تھا۔ علامہ عارف واحدی نے تو اجلاس میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر انہیں پتہ ہوتا کہ آئی ایس او کے لڑکوں کو اجلاس میں بلایا گیا ہے وہ اس اجلاس میں کبھی شریک ہی نہ ہوتے۔ خیر انہوں نے بھی لیاقت بلوچ سےیہ کہہ اجازت لی کہ وہ بھی کل نماز ظہر تک اپنے فیصلے سے آگاہ کردیں گے۔اجلاس میں شریک ہونے والے آئی ایس او کے دوستوں نے اپنی مشاورت مکمل کرکے اگلے ہی روز نماز ظہر سے قبل ہی لیاقت بلوچ اور ثاقب اکبر صاحب کو فون کرکے اپنے فیصلہ سےآگاہ کردیا اور بتا دیا کہ انہیں لیا قت بلوچ کا تجویز کردہ روٹ اور کونسل کی قیادت میں ریلی نکالنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، جس پر لیاقت بلوچ نے آئی ایس او کے دوستوں کی فراغ دلی کو بیحد سراہا اور اس کی تعریف کی۔ آئی ایس او کے دوستوں نے کونسل کے دونوں رہنماوں کو یہ بھی باور کرایا کہ ریلی میں ان کی تنظیم کا کوئی جھنڈا نہیں ہوگا، البتہ قدس سے متعلق مواد کی تشہیر کی جائے گی۔ تاہم صورتحال اس وقت گھمبیر ہوگئی جب کونسل کے رہنماوں کو کونسل کی رکن تنظیم اسلامی تحریک نے ساتھ نہ چلنے اور ملکر ریلی نکالنے سے معذرت کرلی۔ جس کے بعد کونسل کی جانب سے مشترکہ ریلی کی منسوخی کا سرکلر جاری کیا گیا اور آئی ایس او کے دوستوں کی جانب سے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے پر فون کرکے شکریہ ادا کیا گیا۔یاد رہے کہ آئی ایس او کی جانب سے پہلی بار مشترکہ ریلی کیلئے قربانی کی پیشکش نہیں کی گئی بلکہ اس سے پہلے بھی یہ کوششیں کی گئیں۔ کراچی کی سطح پر تمام چیزیں طے پاگئی تھیں لیکن آخری وقت میں ایس یو سی کے صوبائی رہنماء نے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ان کی تنظیم کے دیگر لوگ نہیں مان رہے اس لئے مشترکہ ریلی نہیں ہو سکتی، یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس رہنماء نےآئی ایس او کی ریلی میں ذاتی حیثیت میں شرکت کی اور خطاب بھی کیا تھا۔ اسی طرح تین سال قبل بھی اسلام آباد کی سطح پر مشترکہ ریلی کی کوششیں کی گئیں، حتیٰ آئی ایس او کی جانب سے یہاں تک کہا گیا کہ ہمیں علامہ ساجد نقوی
کی تصاویراٹھانے اور نعرے لگانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، حتیٰ ان کے ریلی سے خطاب پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے اس لئے آئیں اور مشترکہ ریلی کرتے ہیں، لیکن ٹھیک اسی طرح آخری وقت میں اسلامی تحریک کی جانب سے معذرت کرلی گئی۔یہ بات بھی پوری قوم جانتی کہ اسلام آباد میں اسلامی تحریک کی القدس ریلی میں سو سے ڈیڑھ سو افراد شریک ہوتے ہیں جبکہ آئی ایس او کی ریلی میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں جن میں خواتین بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتی ہیں۔ ہم اب بھی کہتے ہیں کہ ملی یکجہتی کونسل اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروائے، فرق یہی ہے کہ آئی ایس او ملی یکجہتی کونسل کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی ساتھ دینے کیلئے مکمل آمادہ ہے لیکن اسلامی تحریک کونسل کی رکن تنظیم ہوتے ہوئے بھی الگ سے ریلی نکال رہی ہے۔ الزام لگانے والے کم از کم اس سوال کا ہی جواب دے دیں کہ اگر آئی ایس او ہی ساتھ نہیں چل رہی تھی تو ملی یکجہتی کونسل نے ریلی کیوں منسوخ کی ہے؟ جبکہ اس کی تمام رکن تنظیمیں تو متفق ہیں ناں۔ اس سے صاف واضح ہے کہ مسئلہ آئی ایس او کا نہیں ہے بلکہ اسلامی تحریک کا ہے۔ خیر اب بھی اگر کوئی مشترکہ ریلی کے انعقاد کی کوئی سبیل نکل سکتی ہے تو ہم ہر قسم کا تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ حتیٰ اپنا نام، جھنڈےاور بینرز تک قربان کیلئے تیار ہیں۔ آئیے خلوص دل کے ساتھ امام خمینی کے فرمان پر مشترکہ ریلی کیلئے اپنا نام، جھنڈا اور بینر قربان کرتے ہیں، آئیں ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ایک مشترکہ ریلی نکال کر دشمن کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ ایک پیج پر ہے۔