مضامین

مودی صاحب! "پیسہ ہر جگہ نہیں بولتا"

تحریر: عیسیٰ برقعی

حضرت آیۃ اللہ امام خامنہ ای کی طرف سے ایک ہی ہفتے میں دو بار کشمیر کا تذکرہ یقینا کوئی حادثہ نہیں ہے۔

مغربی ایشیا کی بحرانی صورتحال اور دنیائے اسلام کے کشمیر کی جانب پوری دنیا کی توجہ کے سبب شدت پسند ہندو جماعت بی جے پی کا بھارت کے اندر، بین الاقوامی سطح پر اور مسئلہ کشمیر پر رویہ روز بروز اسلامی جمہوریہ ایران کے رد عمل کا سبب بن رہا ہے۔

بھارتی حکومت کی پالیسی پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ ایرانی سپریم لیڈر کا اشارہ کن وجوہات کی بنا پر تھا۔

اسلام، بھارت کی مشکل ساز پہچان:

دنیا کے تمام ممالک کے درمیان بھارت میں سب سے بڑی دینی اقلیت موجود ہے۔ 200 ملین مسلمانوں کے سبب ہندوستان دنیا بھر میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ لیکن اقلیت کی اس کثیر تعداد پر قافیہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے حالانکہ ظاہرا نریندر مودی اس سیاست سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقتا ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی تاریخ نئے سرے سے لکھی جا رہی ہے۔

گزشتہ سالوں کے دوران گائے کے گوشت کے مسئلے پر ہندوستان میں 150 سے زیادہ مسلمان زخمی یا مارے گئے ہیں اور ان وارداتوں کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ان حملوں میں حکمران جماعت سے براہ راست تعلق رکھنے والی شدت پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس شامل ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا کہ اس منافرت کے ماحول میں کوئی کمی آنے کے بجائے یہ نفرت کا ماحول مسلسل شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس حد تک کہ ٹوئٹر پر سرگرم بھارتی مسلمانوں نے رواں سال عید کو سیاہ عید "#BlackEid” کے عنوان سے کیمپین چلائی تاکہ عالمی میڈیا کو اس ملک میں مسلمانوں پر آنے والی مشکلات کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔

شدت پسند عناصر کی شرارتوں کے علاوہ بھی نئی دہلی حکومت کی ثقافتی اور اقتصادی پالیسیوں نے مسلمانوں اور ملک کے دیگر شہریوں کے درمیان شگاف ڈال دیا ہے جس کے سبب مسلمانوں کے اندر ایک الگ احساس جاگ رہا ہے حالانکہ مسلمانوں کے علاوہ سکھ، مسیحی اور دیگر اقلیتیں بھی موجود ہیں جن کی تعداد مسلمانوں سے کافی کم ہے لیکن مختلف رپورٹس اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ مسلمان قیدیوں کی تعداد کی شرح دیگر تمام قوموں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

دوسری طرف حکومت سے ملنے والے امکانات اور سہولتوں نیز تعلیمی شرح میں مسلمان سب سے نیچے درجے پر ہیں۔

قانوںی محاذ پر بھی مسلمان مشکلات کا شکار ہیں چاہے وہ گائے کے گوشت کا بہانہ بناکر ہنگامہ برپا کرنا ہو یا تین طلاقوں کا مسئلہ جو اہل سنت کے فقہی مسائل میں سے ہے۔

اس معاملے پر ہندوستان بھر میں معروف شخصیات نے شدید احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ شدت پسند تنظیموں سے رابطے کے الزام میں بنا کسی ثبوت اور گواہی کے مسلمان نوجوانوں کی گرفتاری اور ایک طویل مدت تک ان کو قید و مشقت کی سزا نے مسلمانوں کے درمیان خوف و ہراس کا عالم پیدا کر دیا ہے۔

بھارت اور اسرائیل، وہ عشق جو ظاہر ہو ہی گیا:

1948 میں اسرائیل کے خلاف ووٹنگ کرنے والے ممالک میں بھارت بھی تھا۔ بھارت نے اس منفی ووٹنگ کے بعد بھی 1950 میں اسرائیل کو رسمی طور پر قبول کیا اور 1953 میں بمبئی شہر میں اسرائیل کے پہلے قونصل خانے کا افتتاح ہوا۔ لیکن 1992 تک ہندوستان نے اس ملک سے تعلقات بڑھانے اور تل ابیب میں سفارت کھولنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور 1992 میں نئی دہلی نے تل ابیب میں اپنا سفارتخانہ کھول کر اسرائیل سے اپنے رسمی تعلقات شروع کر دیئے۔ اور اب گجرات کے سابق وزیراعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں یہ تعلقات اپنے عروج پر پہنچ گئے ہیں۔

اقتصاد اور بایوٹیکنیک کے علاوہ بھارت غاصب صیہونیوں سے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بن گیا ہے۔ صرف گزشتہ برس ہی بھارت نے اسرائیل سے 500 ملین ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے۔

اپریل کے مہینے میں بھی بھارت نے اسرائیل سے دو ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ رابطہ صرف اقتصادی اور کاروباری نہیں رہا ہے بلکہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان ثقافتی اور سماجی روابط بھی بحال ہو رہے ہیں۔

شدت پسند ہندو اور صیہونی تنظیموں کے درمیان تعلقات بڑھ رہے ہیں یہاں تک کہ 1950 میں جب ہندوستاں نے اسرائیل کو رسمی طور پر قبول نہیں کیا تھا تب بھی شدت پسند ہندو شخصیتیں اسرائیل کی حامی تھیں۔

واضح رہے کہ تل ابیب میں مودی کا استقبال کرنے کے لئے اسرائیل میں مقیم 4 ہزار بھارتی یہودی شرکت کریں گے۔

کشمیر اور اسے فراموش کرنے کی پالیسی:

شاید مسئلہ کشمیر میں بھارت کی اصل پالیسی کشمیر کو فراموش کرنے پر مبنی ہے۔ "وقت” کشمیری عوام کا سب سے بڑا دشمن اور بھارت کا بہترین دوست ہے۔ بھارت کے حساب سے جتنا وقت گزرتا جائے گا کشمیری عوام اتنی ہی دباو کا شکار ہوتی جائے گی اور اکثر لوگ احتجاج سے منصرف ہوتے جائیں گے۔

1988 میں کشمیر میں مسلحانہ مزاحمت کے بعد سے ہی بھارت نے وہاں 700 لاکھ فوجیوں کو تعینات کرکے ان احتجاجات اور مزاحمت کو شدت کے ساتھ کچل دیا اور 2008میں ہونے والے انتفاضہ کو دانستہ طور پر سختی سے کچلتے ہوئے ختم کر دیا۔

عوام کی بھوک ہڑتال بھی
بھارتی حکومت پر اثر انداز نہیں ہوتی ایسے حالات میں بھارتی حکومت اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان یا کشمیری جماعتوں سے گفت و شنید کرے۔

بھارت ہر عوامی تحریک کو کچل دیتا ہے۔ بھارت کسی بھی مسلحانہ مزاحمت کو اسلام فوبیا کی شکار دنیا کے سامنے دہشتگردی سے مقابلے کا نام دے کر دبا دیتا ہے۔ کشمیر پر کسی بھی ملک کے اعتراض کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا نام دے کر مسترد کر دیتا ہے بھارتی حکومت دنیا کی مضبوط اقتصادی طاقت ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی تنقید کا راستہ روک دیتا ہے چاہے وہ مغرب کے طاقتور ممالک ہی کیوں نہ ہوں کیوںکہ مشکلات اور مصائب کا شکار ان مسلمانوں کے لئے کوئی بھی اپنا کاروباری بازار کھولنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔

کیا پیسہ ہمیشہ بولتا ہے؟

امام خامنہ ای کی جانب سے نماز عید کے خطبوں اور اس کے بعد عدلیہ کے سربراہ اور مسئولین سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر کا تذکرہ در اصل بھارت کی اندرونی، بین الاقوامی اور کشمیر سے متعلق پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

یقینا بھارت کے اقتصادی شراکت داروں میں ایران ایک حساس اہمیت کا حامل ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں اور ایٹمی معاہدے کے بعد بھی بدستور جاری پابندیوں کے مد نظر ایران کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات کو قائم رکھے لیکن یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین اور اس کے قیام کے اہداف میں کاروباری اور تجارتی معاہدوں سے اوپر بھی کوئی چیز ہے۔

بھارت کو ایران کی جانب سے رد عمل کے اسباب اپنی سیاست میں تلاش کرنے ہوں گے اور جان لے کہ یہ ضرب المثل کہ "پیسہ بولتا ہے ہمیشہ کیلئے ٹھیک نہیں ہے” اور یہ کہاوت سب جگہ لاگو نہیں ہوتی۔ اگر دنیا بھر کے مسلم ممالک اپنی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کے سبب خاموشی اختیار بھی کرلیں تو انشاء اللہ ایران خاموش نہیں بیٹھے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button