متاثرین دہشتگردی سے ریاستی حسن سلوک
تحریر: ماریہ لودھی
ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ وقت کبھی رکتا نہیں، رواں رہتا ہے، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ کہ زندگی میں بعض دفعہ ایسے لمحات سے انسان دوچار ہوتا ہے کہ وہ لمحے ماضی، حال اور مستقبل کے گرد حصار بن کر رہ جاتے ہیں، وقت کا پہیہ زمانے کیلئے تو رواں رہتا ہے، مگر قیامت خیز لمحوں سے دوچار ان افراد کیلئے سرے سے وقت ہی بے وقعت ہوکر رہ جاتا ہے۔ عید الفطر سے محض ایک روز قبل جمعۃ الوداع کے دن پورا عالم اسلام جب عیدالفطر کی تیاریوں اور خریداری میں مصروف تھا اور ہر ساعت عید سعید کی نوید بن کر دستک دے رہی تھی کہ پارا چنار کے علاقے اکبر مارکیٹ اور اس کے آس پاس رہنے والوں کیلئے افطار سے کچھ ہی دیر قبل وقت کا یہ رواں پہیہ ایک دھماکے کے ساتھ تھم گیا۔ کئی ساکت گھڑیاں کلائیوں کو ساتھ لئے ادھر ادھر بکھر گئیں۔ جو رواں سوئیاں جائے دھماکہ سے کچھ دور تھیں، وقت اجل کو ساتھ لئے زخمیوں اور شہیدوں کی مدد کیلئے ایکدم دوڑی چلی آئیں، مگر یک لخت دوسرے زوردار دھماکے سے یہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جامد ہوکر رہ گئیں۔ ایک، دو، دس، پندرہ نہیں بلکہ سینکڑوں افراد لمحہ بھر میں آگ و خون میں غلطاں ہوگئے۔ کئی زندگی کھو گئے تو کئی اس ایک لمحہ میں اپنے اعضاء ہار گئے۔ بعض کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریک ہوگئی تو متعدد ایسے بھی ہیں کہ جو شائد نہ کبھی بول پائیں اور نہ کسی کا بولا سن پائیں۔ ان قاتل دھماکوں سے صرف یہی افراد متاثر نہیں ہوئے بلکہ وہ سینکڑوں خاندان متاثر ہوئے ہیں، جن خانوادوں سے یہ تعلق رکھتے تھے۔ جان ہارنے والوں میں بعض اپنے گھروں کے اکلوتے کفیل تھے تو کچھ والدین کی واحد امید، کئی کمسن بچوں کو اپنے شفیق پدر کا مجروح لاشہ دیکھنے کی اذیت سے دوچار ہونا پڑا تو کئی والدین کمسن بچوں کے لاشوں کے ساتھ اعضاء ملانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
دھماکے، خودکش حملے، میڈیا، حکومت، سیاستکاروں اور مقتدر قوتوں کیلئے محض واقعات ہیں، گنتی کے واقعات، ان میں نشانہ بننے والوں کی حیثیت اور اہمیت محض تعداد و اعداد کی حد تک ہے۔ کونسے سال کتنے دھماکے، کتنی ہلاکتیں، کتنے زخمی پر مبنی رپورٹس، ان رپورٹس کی بنیاد پر کشکول کے حجم کا فیصلہ اور بس۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک عام پاکستانی محض گنتی کا عدد بن کر رہ گیا ہے، حادثے کے چھوٹے یا بڑے ہونے کا تعین بھی اعداد کرتے ہیں، اس کے اہم یا غیر اہم ہونے کا تعین بھی یہی اعداد کرتے ہیں ۔یہ عددی فرق ہی تو تھا کہ تیل چوری کے دوران ہونے والے حادثے کیلئے وزیراعظم کو اپنا خارجی دورہ مختصر کرکے واپس آنا پڑا اور دوسری جانب بے گناہ، روزہ داروں پر ملکی سلامتی کے دشمنوں کے بزدلانہ حملے (سانحہ پاراچنار) کے بعد وزیراعظم اور وزیر داخلہ مذمتی بیان تک دینے سے کنی کتراتے رہے۔ شائد ایک فرق یہ بھی تھا کہ ٹینکر حادثہ ایسے مقام پر ہوا، جہاں سیاسی مفادات کا عمل دخل زیادہ جبکہ پاراچنار سانحہ تو ویسے بھی فاٹا میں ہوا، جہاں کے مکین پہلے ہی کشکول تھامے ریاستی حقوق کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ گرچہ پاراچنار براہ راست وفاقی حکومت کی ذمہ داری میں ہے، مگر اس کے باوجود حکومت نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی، کجا سانحہ عظیم کے متاثرین کے پاس جاکر ان کی تسلی و تشفی کیلئے دو لفظ ادا کرنا، انہیں گلے لگانا، ان کے درد و کرب کو محسوس کرکے ان سانحات کی روک تھام کیلئے خلوص دل سے کوئی اقدام لینا۔
ویسے بھی وزیراعظم یا وزیر داخلہ کو اس درد کا احساس ہو بھی کیسے سکتا ہے، کونسا انہوں نے اپنے بچوں کی ایسی لاشیں بیچ سڑک سے چنی ہیں کہ جن کے ایک ایک اعضاء میں کئی کئی انچ بڑے چھید ہوں۔ اس ماں کے دکھ کا کون اعادہ کرسکتا ہے، کون مداوا کرسکتا ہے کہ جس کی گود میں محض ساڑھے چار سال کے بچے کی میت ڈال دی جائے، اس تاکید کے ساتھ کہ بس جتنا چہرہ نظر آرہا ہے، اتنا ہی دیکھنا، (وہ بیچاری مزید چہرہ دیکھتی بھی کیسے، چہرے کا باقی حصہ تو سرے سے تھا ہی نہیں)۔ یہ فیصلہ تو اہل دانش ہی کرسکتے ہیں کہ کیا اس ماں کیلئے وقت رواں ہے یا وہیں رک گیا۔؟ صرف وہی ایک دکھیاری ہو تو صاحبان اختیار کوئی توجہ بھی کریں، یہاں تو ہزاروں مائیں ایسی ہیں کہ جو ریاستی پالیسیوں میں سقم کی سزا پاکر غم و یاس کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ انہی ماؤں میں سے ایک ایسی بھی ہے جو کہ 9 سال سے بستر پہ پڑی جوان بیٹے کی زندہ لاش کی مسلسل تیمارداری کر رہی ہے۔ 9 سال کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا، ڈی آئی خان میں شہید شیر زمان کے جنازے پہ ہونے والے بم دھماکے کا ایک زخمی نوجوان عدیل عباس آج بھی بستر علالت پہ ہے، صرف سانس چلتی ہے، آنکھیں کھلتی اور بند ہوتی ہیں، بس۔۔۔۔۔ ہاتھ پاؤں مڑ چکے ہیں، کان، زبان مدت سے ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ستم بالائے ستم غربت۔۔ ’’حکومت دھماکوں میں شہید ہونے والوں کو امداد زیادہ اور زخمیوں کو کم کیوں دیتی ہے، حالانکہ علاج وغیرہ پہ تو خرچ زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ اس کے سوا وہ اور کہہ بھی کیا سکتی تھی۔ خبر نہیں دہشت گردی کا شکار کتنے عدیل یوں بستر علالت پہ ہیں اور کتنی مائیں شہیدوں اور زخمیوں کی امدا دکے فرق کو سمجھنے سے آج بھی قاصر ہیں۔؟
پاکستان بھر میں ان خانوادوں کی حالت زار کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے کہ جو دہشت گردی کا شکار ہوئے تو ان کے موجودہ حالات ایک جانب ریاستی، حکومتی بے اعتنائی کی دلالت کرتے ہیں اور دوسری جانب شدت سے یہ احساس دلاتے ہیں کہ دہشت گردی نے وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر دہشت گردوں کے ساتھ ان کے آق
اؤں کی وابستگی اور متاثرین دہشتگردی کیساتھ ریاستی حسن سلوک کا موازنہ کیا جائے تو بھی دہشت گردوں کے مقابلے میں مظلوم پاکستانی تنہائی کا زیادہ شکار ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ضرب عضب، ردالفساد وغیرہ وغیرہ ترتیب دیئے گئے اور ان کی کامیابی کیلئے ہر حوالے سے خصوصی انتظامات کئے گئے، اسی طرز پر دہشت گردی کا شکار خانوادوں کیلئے ریاستی سطح پر ایک خاص قسم کا میکنزم تشکیل دیا جائے، جو انہیں زندگی کے دھارے میں شامل کرنے میں معاون مددگار ثابت ہو۔ شہداء کے خانوادوں کیلئے امتیازی سہولیات کا انتظام کیا جائے اور یہ کوئی ایسا راکٹ سائنس کام نہیں ہے بلکہ اس کیلئے محض ذرا سا اخلاص درکار ہے، یہ جو پارلیمنٹ میں دن رات عوامی خدمت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے، انہیں شائد ایک بل ہی تو منظور کرنا ہے۔ جس کے تحت شہداء کے بچوں کیلئے تعلیمی اداروں میں داخلہ اور فیس کی مد میں نرمی برتی جائے۔ شہداء کے خانوادوں کو وہ تمام امتیازی سفری سہولیات دی جائیں، جو کہ سرکاری ملازمین، صحافیوں یا سینیئر سٹیزن کو حاصل ہیں۔ اسی طرح دہشتگردی سے متاثرہ خانوادوں کو صحت کی ان سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جائے، جو اچھے سرکاری اداروں کے ملازمین کو حاصل ہیں۔
ملازمتوں میں شہداء فیملیز کا کوٹہ مختص نہ سہی، مگر ایک خاص کیٹگری ترتیب دی جائے کہ جس میں دہشت گردی سے براہ راست متاثر افراد کو ذرا نرمی مل سکے، ملازمتوں میں معذور افراد کا کوٹہ خاطر خواہ بڑھا کر اس کوٹے میں بم دھماکے کے زخمیوں کو فوقیت دی جائے۔ یہ وہ اقدامات ہیں، جو عوام اور ریاست کے مابین پیدا ہونے والے فاصلے کو نہ صرف کم کرسکتے ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف پوری پاکستانی قوم میں ایک نیا ولولہ و جذبہ پھونکا جاسکتا ہے۔ جو لوگ دہشت گردی کا شکار ہوکر اپنی جانیں کھو چکے، اعضاء کھوچکے، بچوں، بھائیوں، سرپرستوں کی صورت اپنا سب کچھ کھو چکے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ ریاست مکمل طور پر ان کے ساتھ کھڑی ہو اور ان کی ہر ضرورت کی فراہمی میں اپنا کردار بھی ادا کرے اور معاشرے میں ان کی عزت و تکریم میں اضافے کیلئے اپنا کردار بھی ادا کرے۔ جو سیاستکار ملک کو لوٹ کر کھا رہے ہیں، جو سرکاری و نیم سرکاری ملازمین لمبی چوڑی تنخواہوں اور سہولیات و آسائشات سے مستفید ہو رہے ہیں، یا جو ریٹائرڈ جرنیل سینکڑوں گزوں کے فارم ہاؤسز اور قلعہ نما محلات میں رہائش پذیر ہیں، وہ اگر چند سال ریاست کی نوکری (جسے وہ خدمت کا نام دیتے ہیں) کے بعد ان آسائشات کے حقدار ہیں تو وہ لوگ، وہ خاندان کہ جنہوں نے اس ملک کو خون دیا ہے، جوان دیئے ہیں، اپنے بچوں کے سر دیئے ہیں، وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کو اپنے جسم کے اعضاء دان کئے ہیں، کیا ان کا حق فقط اتنا ہی ہے کہ چند روپے دینے کے بعد ریاستی کاغذوں سے ان کی قربانیاں ہی سرے سے خارج ہو جائیں، ہرگز نہیں۔ ریاست دہشتگردی کے شکار خاندانو ں کو لاوارث چھوڑ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کبھی بھی نہیں جیت سکتی، جنگ جیتنے کیلئے ضروری ہے، انہیں ہیرو کا درجہ دیا جائے، جنہوں نے اس جنگ میں اپنا کچھ نہ کچھ یا سب کچھ کھویا ہے، یہ ناگزیر ہے۔