مضامین

لاہور دھماکہ اور کالعدم جماعتوں کے سہولتکار

تحریر: طاہر یاسین طاہر

بلائیں آسمانی بھی ہیں اور ناگہانی بھی۔ زلزلہ آئے یا سیلاب، سٹریٹ کرائمز ہوں یا ڈکیتیاں، ان کے سدباب کی ذمہ داری بہرحال حکومت پہ ہی ہے۔ ہمارے ہاں لیکن چیزون کے جز وقتی علاج پہ بہت توجہ دی جاتی ہے۔ یہی المیہ ہے۔ ہم جس سماج کا حصہ ہیں، یہاں ہماری سوچ گروہی اور مفاداتی ہے۔ اس بحث میں نہیں الجھتے کہ ہر معاشرے میں فرد سے لے کر اداروں تک، مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔ ہم اجتماعی سیاسی و سماجی مفاد پہ بات کرتے ہیں۔ مجموعی حیثیت میں ہم ریاکار اور مختلف سیاسی و مذہبی گروہوں کے آلہ کار ہیں۔ بحث کرنے کو بہت کچھ ہے مگر حقیقت یہی ہے۔ کئی ارب روپے لگا کر ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا، لاہور کو سیف سٹی بنانے کا، کیا سیف سٹی ایسی ہوتی ہے؟ دھماکہ ریڈ زون میں ہوا۔ پولیس اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شہید ہوئے۔ 26 افراد دہشت گردوں کی دہشت گردی کا نشانہ بنے اور 66 سے زائد زخمی ہوئے، جن میں سے اکثر کی حالت تشویش ناک ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھی مال روڈ پہ ہی ایک خودکش دھماکے میں پولیس کے ایک اعلٰی افسر سمیت کئی افراد شہید ہوگئے تھے۔ صوبائی و وفاقی حکومتوں نے حسب سابق واقعے کی مذمت کر دی ہے۔ کہا کہ ایسے واقعات بزدلانہ ہیں، دہشت گرد ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے، دہشت گرد عام شہریوں کو ہدف بنا کر خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف نے حکومت اور حکومت نے اس موقعے پر تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی مذمت کی۔

ممکن ہے اور یقیناً ایسا ہی ہوگا کہ صوبائی و وفاقی حکومتیں شہداء اور زخمیوں کے لئے امدادی رقم کا اعلان بھی کریں گی۔ یہ ہماری سماجی روایت ہے۔ لاشوں اور زخمیوں کو چندہ دینا۔ اصل مسئلے کی طرف مگر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس بات کی میڈیا پہ بہت تکرار کی جاتی ہے کہ صوبائی وزیر قانون کا کالعدم تنظیموں کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ نون لیگ ہو یا تحریک انصاف، دونوں جماعتوں نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہوئی ہے۔ سوات میں صوفی محمد کی کالعدم شریعت محمدی اور ملا فضل اللہ کی کالعدم تحریک طالبان کے خلاف جب آپریشن شروع کیا گیا تو اس وقت آپریشن کے مخالف کردار آج کی پارلیمان میں موجود ہیں۔ شمالی و جنوبی وزیرستان آپریشن شروع ہوا تو، تب بھی مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس آپریشن کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ، بات کو مذاکرات سے طے کیا جائے۔ مسلم لیگ نون نے 2013ء کا انتخاب صرف دو باتوں پر لڑا، لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی۔ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے مسلم لیگ نون کا کہنا تھا کہ وہ 6 ماہ میں ختم کر دیں گے، جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نون لیگ کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ، ہم حکومت میں آکر طالبان سے مذاکرات کریں گے۔

کالعدم تحریک طالبان نے تو نون لیگ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ کسی جماعت کو انتخابی جلسہ تک نہ کرنے دیا اور دھمکی دی ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، دہشت گردوں کے خاص نشانے پہ تھیں، بلکہ ملتان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو اس وقت اغوا کر لیا گیا، جب وہ پیپلز پارٹی کی ایک انتخابی میٹنگ میں شریک تھے اور پھر مبینہ طور پر ملک کے سابق وزیراعظم کو اپنے بیٹے کی بازیابی کے لئے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ ختک کے مولانا سمیع الحق صاحب سے کردار ادا کرنے کو کہا گیا۔ یہ وہ حقائق ہیں، جنھیں جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کیا یاد نہیں کہ دہشت گرد حکیم اللہ محسود کی موت پہ کس کس وزیر نے آنسو بہائے اور اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا؟ کیا یاد نہیں کہ کالعدم تحریک طالبان اور طالبان کی دیگر چھوٹی موٹی اقسام کے حق میں سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کیا ارشاد فرمایا کرتے تھے؟ امریکی میزائل سے مرنے والے کتے کو بھی شہید کہنے کا فتویٰ کس نے دیا تھا؟ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے سماج میں طالبان اور طالبانی فکری رویے کے لئے گہری ہمدردیاں موجود ہیں۔ جب تک اس سچ کو تسلیم نہیں کر لیا جاتا، ہم درندوں کے وار سہتے رہیں گے اور لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ آج بھی کالعدم جماعتوں کا لٹریچر اور ان کے میڈیا سیل کام کر رہے ہیں۔ کئی ویب سائٹس کالعدم جماعتوں کے حق میں ذہن سازی کر رہی ہیں۔ نون لیگ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا کریڈٹ لیتی ہے۔ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ نون لیگ جب اقتدار میں آئی اس جماعت نے کالعدم تحریک طالبان سے باقاعدہ مذاکرات شروع کئے۔

لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز، مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم وغیرہ طالبان اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے، کہ اسی اثناء میں دہشت گردوں نے 21 فوجی جوانوں کے گلے کاٹ کر ان کے سروں سے فٹ بال کھیلنے کی ویڈیو وائرل کر دی۔ پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کر دیا، پھر اے پی ایس پشاور کا دلخراش واقعہ پیش آیا تو جا کر سیاسی و مذہبی جماعتیں، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پہ متحد ہوئیں۔ آپریشن ضرب عضب ہو یا خیبر ون سے آپریشن خبر فور بشمول کومبنگ آپریشن، یہ کریڈت بہرحال پاک فوج کا ہے۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مدت بعد کسی بڑی کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے پہلے لاہور دھماکے کی ذمہ داری کالعدم جماعت الاحرار نے قبول کی تھی، جو کہ کالعدم تحریک طالبان سے ہی علیحدہ ہونے والا ایک دھڑا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے لاھور کے ریڈ زون دھماکے کی ذمہ داری قبول کرکے اپنی بقا اور حکمت عملی کا اظہار کر دیا ہے۔ پا
کستانی سماج میں جہاں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف زور دار اور توانا آوازیں اور کردار موجود ہیں، وہیں ان دہشت گردوں کے جلی و خفی سہولت کار بھی موجود ہیں۔

انہیں سہولت کار کیوں نہیں سمجھا جا رہا جنھوں نے اے پی ایس پشاور میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا؟ دہشت گرد افغانستان سے آئے یا شمالی و جنوبی وزیرستان سے، اپنے ساتھ دھماکہ خیز مواد نہیں لاتا۔ شہروں میں ان کے سہولت کار موجود ہیں۔ یہی سے دھماکہ خیز مواد دہشت گردوں کو دیا بھی جاتا ہے اور انہیں ٹارگٹ تک پہنچایا بھی جاتا ہے۔ یہ امر بھی واقعی ہے کہ خودکش جیکٹس سہولت کاروں کے ٹھکانوں پہ ہی بنتی ہوں۔ اس فکری مغالطے سے نکلنا ہوگا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ بقول ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب، ان کا باقاعدہ مذہب بھی ہوتا ہے اور ان کی فقہ بھی ہوتی ہے۔ کیا دہشت گرد خودکش حملے سے پہلے نعرہ تکبیر بلند نہیں کرتا؟ کیا وہ جنت کے لالچ میں نہیں پھٹتا؟ اور سب سے بڑھ کر، جن پہ حملہ آور ہوتا ہے انہیں وہ کافر، زندیق اور گنہگار نہیں سمجھتا؟ ایک آپریشن دہشت گردوں کے جلی و خفی سہولت کاروں کے خلاف بھی کیا جائے اور ان کے خلاف بھی جو دہشت گردی کی براہ راست مذمت کرنے کے بجائے، اگر، مگر کا سہارا لیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button